شیشہ و تیشہ

فرید سحرؔ
غزل ( طنز و مزاح)
کلام کوئی بھی سنتا نہیں یہاں میرا
قصور کیا ہے بتاؤ ذرا میاں میرا
ہوا ہے راز جو بستی میں اب عیاں میرا
مرے ہی یار پہ یارو ہے بس گماں میرا
تمام پٹھے مرے چھاگئے ہیں بستی پر
پھلے گا یوں ہی زمانے میں خانداں میرا
تُو مال میکے سے لاکر جو گھر چلاتی ہے
’’ترے وجود سے روشن ہے یہ مکاں میرا‘‘

شیشہ و تیشہ

علامہ اسرار جامعیؔ
میٹھی زبان…!
اردو کا ایک آدمی جو آج کل ہے چُپ
ایسا نہ سمجھیں اردو سے وہ بدگمان ہے
شوگر کا وہ مریض ہے پرہیز ہے اُسے
اردو کو لوگ کہتے ہیں میٹھی زبان ہے
……………………………
کریٹیکلؔ جگتیالی
مزاحیہ حزل
ہے چھچوندر جیسے ، اُن کا جگ ہے دیوانہ کتے
دیکھ کر مُکھڑے کو اُن کے چاند شرمانا کتے

غزل (مزاحیہ)

شیخ احمد ضیاءؔ (شکرنگر)
غزل (مزاحیہ)
صاحب کچن میں آؤ سردی عروج پر ہے
واکنگ کو لیٹ جاؤ سردی عروج پر ہے
بیگم نہ اب ستاؤ سردی عروج پر ہے
یوں حکم نہ چلاؤ سردی عروج پر ہے
اس فالتو بحث میں گرمی کہاں سے آئے
کچھ شعر ہی سناؤ ، سردی عروج پر ہے
پانی نے برف بن کر پیغام یہ دیا ہے
اب دودھ ہی نہاؤ سردی عروج پر ہے

شیشہ و تیشہ

علامہ اسرار جامعیؔ
دیسی زبان …!
ہندی ہو یا کہ اردو یہ دیسی زبان ہے
گنگا کا حُسن ان میں ہمالہ کی شان ہے
انگلش مگر یہ کہتی ہے کہ اس کے باوجود
میرا غلام آج بھی ہندوستان ہے
……………………………
لیڈؔر نرملی
غزل (مزاحیہ)
بیماریوں کا ہے یہ پٹارا ، نہ لیجئے
گر مفت بھی ملے تو مٹاپا نہ لیجئے
بے لوث Candidate کو بے لوث ووٹ دیں

شیشہ و تیشہ

استاد رامپوری
یہ سال دوسرا ہے
(جنوری سے ڈسمبر تک کا حساب کتاب )
جب تم سے اتفاقاً میری نظر ملی تھی
کچھ یاد آرہا ہے شاید وہ جنوری تھی
مجھ سے ملیں دوبارہ یوں ماہ فروری میں
جیسے کہ ہم سفر ہو تم راہِ زندگی میں
کتنا حسیں زمانہ آیا تھا مارچ لے کر
راہِ وفا پہ تھیں تم وعدوں کی ٹارچ لے کر
باندھا جو عہدِ اُلفت اپریل چل رہا تھا

شیشہ و تیشہ

پاپولر میرٹھی
سال بھر بعد !!
چھ مہینے میں ہی یہ حال کیا بیوی نے
سال بھر بعد تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
اس طرح رکھتی ہے وہ ہم کو دبا کر گھر میں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
………………………
شاہد ریاض شاہدؔ
نیا سال مبارک
لو جی غربت اور مہنگائی کا وبال آ گیا
گندی سیاست کا ایک جھنجال آ گیا
بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ لیے دوستو!

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
حریفِ سُخن
تجھے ہے شوق بہت مجھ سے بیت بازی کا
یہ سوچ لے مرے پندار سے اْلجھتے ہوئے
شکست ترا مقدر ہے بے خبر کہ مجھے
ہیں شعر یاد بہت لاریوں میں لکھے ہوئے
……………………………
وحید واجدؔ
کونسلر…!
سارا چُکتا حساب کردوں گا
دن کو ٹیکنی کلر تو ہونے دو
گھر کی نالی تمہارے گھر ہوگی
اب ذرا کونسلر تو ہونے دو
………………………

شیشہ و تیشہ

وحید واجدؔ
لکھ پتی …!
سارے قرضوں سے فری ہوجاؤں گا
جلد ہی میں بھی غنی ہوجاؤں گا
کالے دھن کو مودی جی لے آئیں گے
میں بھی یارو لکھ پتی ہوجاؤں گا
………………………
محمد امتیاز علی نصرتؔ
…ہم نہیں کرتے
مذہب کے نام پر ظلم و ستم ہم نہیں کرتے
وفا کی آڑ میں سیاست ہم نہیں کرتے
زمیں کی کوکھ میں بھی جاتے ہیں تو غسل کرکے

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
صباحت و ملاحت
یہاں کلچے لگائے جا رہے ہیں
نمک کیوں لائیے جاکر کہیں سے
اُٹھا کر ہاتھ میں میدے کا پیڑا
’’پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے‘‘
………………………
شعیب علی فیصل (محبوب نگر)
دوہری خوشی …!
کہا مالک نے نوکر سے کہ رقعے کیوں نہیں بانٹا
ارے کل ہی تو شادی ہے یہ تو نے کردیا گھپلا
کہا نوکر نے ’’خوش ہونگے براتی سارے آ آکر

شیشہ و تیشہ

وحید واجد (رائچور)
جھاڑو…!
ہاتھوں میں لئے کوئی کھڑا ہے جھاڑو
یا خود ہی دباؤ میں بنا ہے جھاڑو
کوئی نہ کوئی جھاڑ رہا ہے بے شک
بھارت پہ ہر ایک پھیر رہا ہے جھاڑو
٭٭٭
ہر روز جہاں دیکھو یہی ہے چرچا
دراصل ہے مذہب کا فسادی کچرا
جب تک یہ فسادی ہے مرے بھارت میں بھارت یہ مرا ’سوچھ‘ نہیں ہوسکتا
………………………
ایسا کرو …!

شیشہ و تیشہ

وحید واجد (رائچور)
بھارت کی صفائی …!
ہِنسا کی غلاظت کا بہت کچرا ہے
اَندھا ہے اپاہج تو کوئی بہرا ہے
نفرت و حقارت و تعصب ہو تو
بھارت کی صفائی کے لئے خطرہ ہے
………………………
عنایت علی خان
چمکی جو برقِ یار
آیا وہ گل عذار تو گل ہو گئے چراغ
چمکی جو برقِ یار تو بجلی چلی گئی
دل کا کنول نا ہو سکا روشن کسی طرح

بہت کچرا ہے …!

وحید واجد (رائچور)
بہت کچرا ہے …!
کچرا تو بہرحال بُرا ہے ، جھاڑو
جھاڑو کے لگانے سے ہٹا ہے ، جھاڑو
لیکن جو خطرناک ہے اصلی کچرا!
انسان کے اندر ہی چُھپا ہے جھاڑو!!
………………………
مرزا یاور علی محورؔ
طنزیہ غزل
گھٹیا بہت ہیں گھٹالے بہت ہیں
مگر عظمتوں کے حوالے بہت ہیں
کرتے ہیں ہر دم سفیدی کا چرچا
مگر کام اُن کے تو کالے بہت ہیں

شیشہ و تیشہ

پاپولر میرٹھی
پھر فیل !
اس مرتبہ بھی آئے ہیں نمبر تیرے تو کم
رسوائیوں کا میری دفتر بنے گا تو
بیٹے کے سر پہ دیکے چپت باپ نے کہا
پھر فیل ہوگیا ہے منسٹر بنے گا تو
………………………
امتیاز علی نصرتؔ
ہو نہیں سکتا…!
اوروں کا بُرا کرکے بھلا ہو نہیں سکتا
دُنیا کو دغا دے کے نفع ہو نہیں سکتا
اندھیر بھی کچھ دیر چلیں گی میرے پیارے

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
فن کار
اے بندۂ مزدور نہ کر اِتنی مشقت
کاندھے پہ تھکن لاد کے کیوں شام کو گھر آئے
جاکر کسی دفتر میں تو صاحب کا ہُنر دیکھ
بیکار بھی بیٹھے تو وہ مصروف نظر آئے
……………………………
محمد حسن الدین صوفیؔ
دو لفظ …!
دو لفظ پڑھنے آتے ہی مسرور ہوگیا؟
محفل میں داد پاتے ہی مغرور ہوگیا؟
بے چین کرکے رکھ دیا شہرت کے شوق نے

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
جنگل راج…!
تماری بھینس کیسے ہیکہ جب لاٹھی ہماری ہے
اب اِس لاٹھی کی زد میں جو بھی آئے سو ہمارا ہے
مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے
تمہارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے
……………………………
محمد ضیاء عرفان قادری حسامی
غزل (طنزیہ)
دُکھی ماں باپ کے ہاں کیا نہیں تھا
کھلونے تھے مگر بچہ نہیں تھا

پرنس حیدرآبادی

غزل (طنزیہ کلام)
لینا دینا کچھ بھی نکو ، لوگاں اچھے رہنا بھئی
بن مانگے جو گھر بھردیں ، لوگاں ایسے رہنا بھئی
اکلوتی اور لاڈلی بیٹی والے گھر کو جانا بھئی
بیٹے بارہ تیرہ رہنا، بیٹی ایکیچ رہنا بھئی
اِن بھی اپنا اُن بھی اپنا ، سب کے سب ہیں چندی چور
ہونٹ بھی اپنے دانت بھی اپنے ، کسکو کیا ہے کہنا بھئی

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
ہتک…!
کل قصائی سے کہا اِک مفلسِ بیمار نے
آدھ پاؤ گوشت دیجئے مجھ کو یخنی کے لئے
گْھور کر دیکھا اُسے قصاب نے کچھ اس طرح
جیسے اُس نے چھیچھڑے مانگے ہوں بلی کے لئے
……………………………
عابی مکھنوی
خودی کا راز…!
خودی کے راز کو میں نے بروزِ عید پایا جی
کہ جب میں نے کلیجی کو کلیجے سے لگایا جی

شیشہ و تیشہ

عید سے پہلے …!
ریٹ تیرے سن کے میں حیران ہو گیا
قصائی کی فیس پوچھی تو پریشان ہو گیا
تیری قربانی تو عید کو ہو گی بکرے میاں
میں تو مگر عید سے پہلے قربان ہو گیا
………………………
بکرے کی فریاد
قربانی سے پہلے ایک بکرے کے تاثرات :
عید الضحٰی پر قریب آئی جو قربانی کی رات
چلتے چلتے ایک بکرا کہہ گیا مجھ سے یہ بات

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
فقیر آئے اور بددُعا کرچلے!
تیری خواہش ہے اے میرے دْشمن
عین جنگل میں مْجھ کو شام پڑے
لے مری بد دْعا بھی سْنتا جا
جا تْجھے سی۔ ڈی ۔ اے سے کام پڑے
……………………………
شاداب بے دھڑک ؔ
نظم بے دھڑک
گیڈر کو بھی شیر بتانا پڑتا ہے
بھینس کے آگے بین بجانا پڑتا ہے
سانسد بننا بھارت میں آسان نہیں
باپ گدھے کو بھی بنوانا پڑتا ہے

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
خروسِ بے خروش
اے راہرو گزرتی ہوئی ویگنوں میں دیکھ
انساں کی با وقاریاں با اختیاریاں
کیا اِس میں جُھوٹ ہے کہ اِسی ایک رُوٹ پر
مْرغا بنی ہوئی ہیں ہزاروں سواریاں
……………………………
فرید سحرؔ
غزل (طنز و مزاح)
ہائے رے قسمت یہ اپنی کیسا لفڑا ہوگیا
عشق جس لڑکی سے کرتے تھے وہ لڑکا ہوگیا
کونسلر کیا بن گیا ہے دوستو سالا مرا