شیشہ و تیشہ

شاداب بے دھڑک مدراسی
فنِ طنز…!
مزاح و طنز سے ہوتی ہے ہر زندہ دلی پیدا
نہیں ہوتی کبھی مُردہ دلوں میں زندگی پیدا
یہ وہ لافنگ سلینڈر ہے جو دُکھ سہنے سے پھٹتا ہے
کسی کے مسخرے پن سے نہیں ہوتی ہنسی پیدا
………………………
محمد یوسف الدین ۔نرمل
مزاحیہ غزل
ففٹی ففٹی پہ کررا چندہ ہے
کیا ثوابی میاں یہ بندہ ہے
جھوٹ ، مکاری ، لوٹ اور دھوکہ

شیشہ و تیشہ

شاداب بے دھڑک مدراسی
فنِ طنزو مزاح
طنز کی چوٹ ہر کوئی سہتا نہیں
ظرف شادابؔ و زندہ دِلی چاہئے
اپنے زحموں پہ ہنس لینا آساں نہیں
گُردہ فولادی دل آہنی چاہئے
………………………
محمد امتیاز علی نصرتؔ
آج کی سچائی…!
کوئی ٹوپی تو کوئی اپنی پگڑی بیچ دیتا ہے
ملے گر بھاؤ اچھا جج بھی کرسی بیچ دیتا ہے

شیشہ و تیشہ

شاداب بے دھڑک مدراسی
ہنسنے کی مشق!
دامانِ غم کو خون سے دھونا پڑا مجھے
اشکوں کے موتیوں کو پرونا پڑا مجھے
میری ہنسی میں سب یونہی شامل نہیں ہوئے
ہنسنے کی مشق کیلئے رونا پڑا مجھے
………………………
احمدؔ قاسمی
غزل (مزاحیہ)
لمحہ لمحہ عذاب گرمی کا
کچھ نہ پوچھو حساب گرمی کا
دُھوپ ایسی کہ جسم جلتا ہے
چھاؤں میں بھی عِتاب گرامی کا

شیشہ و تیشہ

شاداب بے دھڑک مدراسی
ثوابِ جاریہ
حدیث زندہ دِل میں یہ لکھا ہے
ہنسانا ہنسنا صحت کی دوا ہے
خوشی بانٹو بلاشک ہے عبادت
ہنسی بانٹو ثوابِ جاریہ ہے
………………………

محمد محمود خان درّانی
شاعر کی نظر میں انتخابات !
بہادر ہند کی شیرنی کو دیکھئے
ایک چوہے سے ڈرایا جارہا ہے
سیاست جس کے آگے ہے سرنگوں
اُس پہ کیچڑ اُچھالا جارہا ہے

شیشہ و تیشہ

شعیب علی فیصل
قطعہ
’’آئے ہیں مہمان گھر میں کچھ تو لا بازار سے‘‘
ماں نے بیٹے سے کہا تو بھاگا وہ رفتار سے
ماں نے اس کو روک کر پوچھا کہ وہ کیا لائے گا
’’آٹو لانے جاؤنگا‘‘ ماں سے کہا یہ پیار سے
………………………

احمد شاہ کومی
سویرا…!
میں اک سویرا دیکھتا ہوں
میں انقلاب سونگھتا ہوں
میری آنکھوں میں چمک ہے اب

شیشہ و تیشہ

شعیب علی فیصل
قطعہ
اُس نے رشوت جو مانگی یہ کہہ کر
’’مٹھی میری گرم کرو مسٹر‘‘
رکھ دیا میں بھی دوستو فوراً
جلتے سگریٹ کو ہتھیلی پر
………………………

خواہ مخواہ
نئیں بولے تو سنتے نئیں …!!
دیکھو کِتّا سمجھارؤں میں نئیں بولے تو سنتے نئیں
اپنی من مانی تم کررئیے نئیں بولے تو سنتے نئیں
کرنے کے جو کاماں ہیں وہ تو جیسے کے ویسئی ہیئں

شیشہ و تیشہ

شاداب بے دھڑک ، مدراسی
فنِ طنز و مزاح
میں پرائے تجربوں کی ہمسری کرتا نہیں
غیر کی تخئیل سے رسّہ کشی کرتا نہیں
مجھ کو پڑھتی ہیں کِتابیں لفظ لکھتے ہیں مجھے
میں غلت رکھ کر مقابل شاعری کرتا نہیں
………………………
مرزا یاور علی محورؔ
مزاحیہ وطنزیہ غزل
جانِ جاناں تجھے ہوا کیا ہے
تیری زلفوں میں یہ بفا کیا ہے
آپ جھوٹے ہیں بات سچی ہے

شیشہ و تیشہ

عنایت علی خان
اور بجلی چلی گئی…!
وہ تو چلے بھی آئے مگر جب ہوا شروع
گلشن کا کاروبار تو بجلی چلی گئی
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
باقی تھی پونے چار کہ بجلی چلی گئی
……………………………
شاداب بے دھڑک مدراسی
سکۂ رائج الوقت
ماسٹرپیس ہوں بے دھڑک طرز کا
معنی شادابؔ رکھتا ہوں ہر رمز کا
کیش کرلو مجھے پھر نہ ہاتھ آؤں گا

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
ہوئے تم دوست …!
اِس طرح کررہا ہے حقِ دوستی ادا
اُس کا خلوص ہے مجھے حیراں کئے ہوئے
مدت سے ہے اناج کا دْشمن بنا ہوا
’’مُدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے‘‘
……………………………

شادابؔ بے دھڑک مدراسی
قطعہ
میں لومڑی نہیں ہوں بیابانِ شعر میں
شیر ببر ہوں دشت و گلستانِ شعر میں
شادابؔ ہوں غزل میں ہزل میں ہوں بیدھڑکؔ

شیشہ و تیشہ

باقر تحسینؔ
قاتلوں کے چہرے بھی …!
کیا یہی زمانے کی ہم پہ مہربانی ہے
جس طرف نظر ڈالو اُس طرف گرانی ہے
بھوک ، پیاس کے مارے کس قدر شکستہ ہیں
انگ انگ سے اُن کے پھوٹتی جوانی ہے
سر چھپانے اب کوئی آسرا نہیں اُن کو
آسماں کے سائے میں زندگی بتانی ہے
کرب ان کے چہروں پر دیکھئے نمایاں ہے
بھیگی بھگیی پلکیں ہیں آلودہ پیشانی ہے

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
کھاد …!
چارہ جوئی کہ ضروت ہے بنی آدم کی
یہ بھی ایجاد کرے گی ہمیں معلوم نہ تھا
گھاس کا ذائقہ سبزی میں چلا آیا ہے
کھاد برباد کرے گی ہمیں معلوم نہ تھا
……………………………

لغت جدید
رئیل اسٹیٹ : اولادِ ذکور
صاحب جائیداد : بہو یا بیوی کے زیورات کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقومات سے خریدے گئے مکانات کا مالک ۔

شیشہ و تیشہ

محمد ایوب خان جھاپڑؔ
حضرت (مزاحیہ غزل )
سر ہمارا پکا گئے حضرت
اور بھیجہ بھی کھا گئے حضرت
مفت کی جب کبھی ملی اُن کو
پوری باتل چڑھا گئے حضرت
اِن کی اُن کو سنا کے سب باتیں
ایک جھگڑا لگا گئے حضرت
میری لکھی ہوئی سبھی غزلیں
اپنی کہہ کر سنا گئے حضرت
میٹھی باتوں سے قرض داروں کو
پل میں چونا لگا گئے حضرت
گر ہے جینا تو پہلے مرنا سیکھ

شیشہ و تیشہ

پاپولر میرٹھی
سال بھر بعد !!
چھ مہینے میں ہی یہ حال کیا بیوی نے
سال بھر بعد تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
اس طرح رکھتی ہے وہ ہم کو دبا کر گھر میں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
………………………

شاہد ریاض شاہدؔ
نیا سال مبارک
لو جی غربت اور مہنگائی کا وبال آ گیا
گندی سیاست کا ایک جھنجال آ گیا
بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ لیے دوستو!