شیشہ و تیشہ

علامہ اسرار جامعیؔ
دیسی زبان …!
ہندی ہو یا کہ اردو یہ دیسی زبان ہے
گنگا کا حُسن ان میں ہمالہ کی شان ہے
انگلش مگر یہ کہتی ہے کہ اس کے باوجود
میرا غلام آج بھی ہندوستان ہے
……………………………
لیڈؔر نرملی
غزل (مزاحیہ)
بیماریوں کا ہے یہ پٹارا ، نہ لیجئے
گر مفت بھی ملے تو مٹاپا نہ لیجئے
بے لوث Candidate کو بے لوث ووٹ دیں
جمہوری حق کا اپنے کرایہ نہ لیجئے
پٹرول گر ہے مہنگا تو سستی ہے گھاس کب
ماروتی کار بیچ کے ٹانگہ نہ لیجئے
سگریٹ اور شراب سے فرمائیے نہ عشق
عہدِ شباب دے کہ بڑھاپا نہ لیجئے
دعوت میں کھانے بیٹھیں تو یہ بھی رہے خیال
اُٹھتے سمے کسی کا سہارا نہ لیجئے
سودا کریں نہ دین کا دنیا کے واسطے
نایاب ہیرا دے کے یہ کچرا نہ لیجئے
رستے میں یہ دوکان لگائیں گے بار بار
لُونا ہو یا پلین ، کھٹارا نہ لیجئے
دَم ہے تو اپنی ذات سے کچھ کر دکھائیے
لیڈرؔ حسب نسب کا سہارا نہ لیجئے
………………………
… کسی سے کم نہیں !
دُلھے نے اپنی دلہن سے کہا : ’’آج سے تم میری زینت ہو ، تبسم ہو ، تمنا … ‘‘
دلھن نے (شرماکر ) جواب دیا : ’’آج سے آپ بھی میرے لئے یاسر ہو ، زین ہو ، رضوان ہو …!!‘‘
محمد امتیاز علی نصرتؔ ۔ پداپلی ، کریمنگر
………………………
سب سے بڑی طاقت …!
٭ دنیا بھر میں نفسیات کے حوالے سے مشہور ایک کالج میں نفسیات کی پریکٹیکل مشق کراتے ہوئے پروفیسر نے ایک لڑکے کے سامنے ایک طرف کیک اور ایک طرف لڑکی رکھی … لڑکا فوراً کیک کی طرف لپکا اور کھاگیا ۔ دوسری بار پروفیسر نے روٹی رکھی تو لڑکا روٹی کی طرف بھاگا … یوں بار بار فوڈ آئٹم بدلنے پر لڑکا ہر بار فوڈ آئٹم کی طرف ہی بھاگتا رہا ۔ یہ دیکھ کر پروفیسر نے کہا : ’’اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ بھوک ہی سب سے بڑی طاقت ہے …!‘‘
کلاس کی آخری لائن میں بیٹھا لڑکا بولا :’’ سر جی ! ایک بار لڑکی بدل کر بھی دیکھ لیں یہ تو پہلے ہی اِس کی بیوی ہے۔
ابن القمرین ۔ مکھتل
………………………
سماجی بھلائی…!
٭ دوران مقدمہ ایک چور نے جج کو متاثر کرنے کیلئے کہا،’’جج صاحب …! ہم لوگ بھی سماج کی بھلائی کیلئے کام کرتے ہیں ‘‘
جج نے حیرت سے چور سے جواباً پوچھا : ’’تم نے سماج کی بھلائی کیلئے کونسا ایسا کام کیا ذرا بتاؤ تو سہی ؟
چور نے جواب دیا : ’’صاحب ہماری ہی وجہ سے پولیس اور عدالت میں لاکھوں لوگوں کو نوکری (روٹی ، روزی ) ملتی ہے!!
رضیہ حسین ۔ گلبرگہ شریف
………………………
کیا کریں یار …!
٭ کسی سوپر مارکٹ میں 2 دوست ایک عرصہ بعد ملے ، اپنے دوست کو ترکاری لیتا دیکھ کر ایک نے طنزیہ طورپر کہا آپ اور ترکاری …؟ تعجب ہے ۔
اس طنز کا جواب دیتے ہوئے دوسرے نے بڑی معصومیت سے کہا : ’’کیا کریں یار ! ہم آپ کی طرح گوشت خور جو نہیں رہے !‘‘
دستگیر نواز ۔ حیدرآباد
………………………
بدنصیب !
٭ ٹیلی ویژن پر ایک دیہاتی کا انٹرویو دکھایا جارہا تھا۔ دوران انٹرویو دیہاتی نے کہا ’’میں بار بار کہوں گا کہ ہمارے گاوں کے لوگوں کی صحت اتنی اچھی ہے کہ 15 سال میں صرف ایک شخص کی موت ہوئی ۔
انٹرویو لینے والے نے بڑی حیرت سے پوچھا … ’’ بہت خوب ! ۔ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ وہ بدنصیب کون تھا اور کیسے مرا؟‘‘۔
دیہاتی نے کہا :’’جی ہاں ، وہ ڈاکٹر تھا اور اس کی موت فاقوں کے سبب ہوئی…!‘‘
رشید شوق ۔ بانسواڑہ
……………………………