شیشہ و تیشہ

پاپولر میرٹھی
پھر فیل !
اس مرتبہ بھی آئے ہیں نمبر تیرے تو کم
رسوائیوں کا میری دفتر بنے گا تو
بیٹے کے سر پہ دیکے چپت باپ نے کہا
پھر فیل ہوگیا ہے منسٹر بنے گا تو
………………………
امتیاز علی نصرتؔ
ہو نہیں سکتا…!
اوروں کا بُرا کرکے بھلا ہو نہیں سکتا
دُنیا کو دغا دے کے نفع ہو نہیں سکتا
اندھیر بھی کچھ دیر چلیں گی میرے پیارے
دھوکے سے کوئی کام سدا ہو نہیں سکتا
………………………
وحید واجد (رائچور)
بہت کچرا ہے …!
چل نِکلے اپاہج بھی چلا کے جھاڑو
بے کار ہے کیوں تُو بھی اُٹھالے جھاڑو
ہے لوک کہ پَرلوک سبھا کچھ مت دیکھ
کچرا ہے جہاں پر بھی لگادے جھاڑو
………………………
خواجہ فریدالدین صادقؔ
مزاحیہ غزل
اپنے بھارت سے یہ جُڑا کیوں ہے ؟
یہ گُھٹالوں کا سلسلہ کیوں ہے ؟
کیسے سر کو بچاؤں بیلن سے
میری بیگم کو یہ ملا کیوں ہے ؟
چور ہے اور اُچکا ہے لیڈر
ووٹ ناداں اُسے دیا کیوں ہے ؟
بن کے اک تو غلام جورو کا
گھرجوائیں بن کے تو پڑا کیوں ہے ؟
کیا ارادہ ہے یہ بتا تیرا
ہنس کے سالی سے تو مِلا کیوں ہے ؟
کیوں پڑوسن کو تک رہا ہے تو
کھڑکی کھولے بتا کھڑا کیوں ہے ؟
تونے دیکھا تھا کل پڑوسن کو
ناداں بیگم سے یہ کہا کیوں ہے ؟
شادی کرکے یہ کہتا ہے صادقؔ
یہ گلے میں مِرے بلا کیوں ہے ؟
………………………
مجھ سے ملو …!
٭ ایک شام کو کمپنی کے ڈائرکٹر کی بیوی اس کے آفس میں پہنچ گئی ۔ دونوں ایک ساتھ آفس سے نکلے ہی تھی کہ برآمدے میں ایک حسین اسٹینوگرافر نے ڈائرکٹر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا … !’’ہیلو ڈارلنگ…!‘‘
ڈائرکٹر کی بیوی نے مسکراکر بڑی نرمی سے کہا: ’’مجھ سے ملو …! میں مسز ڈارلنگ ہوں …!!‘‘
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
………………………
جواب پڑھ لو…!
٭ ایک طالب علم کو امتحان میں کوئی بھی سوال کا جواب نہیں آیا ہے ۔ اُس نے ہر سوال کے نیچے کئی لائنس لگادی اور لکھا … ’’اسکیراج کرکے جواب پڑھ لو …!!‘‘
غلام مصطفی عرشی ۔ نرمل
………………………
فضول خرچی…!
٭ ایک کنجوس آدمی نے اپنے بیٹے سے پوچھا بیٹے کچھ پڑھ رہے ہو؟
بیٹے نے کہاں ’’نہیں ‘‘
آدمی نے پھر پوچھا کچھ لکھ رہے ہو بیٹا ۔
بیٹے نے جواب دیا ’’نہیں ‘‘
کنجوس آدمی نے کہا ! تو پھر بلاوجہ چشمہ کیوں لگائے ہوئے ہو ، کیا یہ فضول خرچی نہیں ہے بیٹا…!؟
ڈاکٹر ظفراقبال ۔ سنگاریڈی
………………………
آہستہ آہستہ …!
باپ ( بیٹے سے ) : تم آج پھر اسکول سے بھاگ کر آئے ہو ؟
بیٹا : آپ سے یہ کس نے کہا ابو !؟ میں تو آہستہ آہستہ چل کر آیا ہوں …!
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
………………………
اُس زمانے کے ٹیچر …!
٭ ایک ٹیچر نے گاندھی جی کی زندگی پر مشتمل سبق پڑھاتے ہوئے کہا گاندھی جی جب اسکول میں امتحان لکھ رہے تھے تواُن کی ٹیچر نے انھیں کتاب دیتے ہوئے کہا اس میں سے دیکھ کر جواب لکھ لو ، تو انھوںنے جواب دیکھ کر لکھنا پسند نہیں کیا ۔ تو بچو ! اس سے آپ کو کیا سبق ملا؟کلاس میں موجود ایک شرارتی بچے نے فوراً اُٹھ کر کہا : ٹیچر …! اس سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ اُس زمانے کے ٹیچر بچوں کے بہت ہمدرد تھے …!!
محمد اختر حسین۔سعیدآباد کالونی
………………………