شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
حریفِ سُخن
تجھے ہے شوق بہت مجھ سے بیت بازی کا
یہ سوچ لے مرے پندار سے اْلجھتے ہوئے
شکست ترا مقدر ہے بے خبر کہ مجھے
ہیں شعر یاد بہت لاریوں میں لکھے ہوئے
……………………………
وحید واجدؔ
کونسلر…!
سارا چُکتا حساب کردوں گا
دن کو ٹیکنی کلر تو ہونے دو
گھر کی نالی تمہارے گھر ہوگی
اب ذرا کونسلر تو ہونے دو
………………………
فرید سحرؔ
غزل (طنز و مزاح)
بات سچ میں بتانا نہیں چاہتا
اپنی گردن کٹانا نہیں چاہتا
میں سیاست میں آنا نہیں چاہتا
منہ کو کالِک لگانا نہیں چاہتا
شادیاں بیٹیوں کی ہیں کرنی مجھے
’’میں ابھی مسکرانا نہیں چاہتا‘‘
کام مدت سے اٹکے ہوئے ہیں مرے
میں جو رشوت کھلانا نہیںچاہتا
ایک گھر مجھ کو کافی ہے ڈوری میں بس
میں کوئی اب خزانہ نہیں چاہتا
نیک انساں بناؤں گا بیٹے کو میں
اس کو لیڈر بنانا نہیں چاہتا
کس لئے میں بناؤں محل اک یہاں؟
عارضی میں ٹھکانہ نہیں چاہتا
دل میں بیوی کو دوں گا جگہ میں مگر
اس کو سر پر بٹھانا نہیں چاہتا
شعر خود کے سناؤں میں کیوں کر سحرؔ
ہوٹ ہوکے میں آنا نہیں چاہتا
………………………
کیوں آئے …؟
٭ شوہر رات بھر گھر سے غائب رہا اور صبح وقت آیا تو بیوی کو بہت غصہ آیا ’’آپ اس وقت بھی کیوں آئے ؟‘‘
’’ناشتہ کرنے ‘‘ جواب ملا ۔
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
………………………
اُمید کی انتہا…!
٭ امتحان ہال میں بیٹھا لڑکا ، ہاتھ میں سوال کا پرچہ تھامے ہوئے اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے :
فکر مت کرو ! امتحان ملتوی ہوجائیں گے !
سلطان قمرالدین خسرو ۔ مہدی پٹنم
………………………
پولیٹکس (Politics)
بیٹا (اپنے ٹیچر باپ سے ) :ڈیڈ ! یہ پولیٹکس کیا ہے؟
ٹیچر ( باپ ) : تمہاری ماں گھر چلاتی ہے اُسے حکومت مان لو ، میں کماتا ہوں مجھے وزیر مان لو ، کام والی کام کرتی ہے اُسے مزدور مان لو ، تم اپنے آپ کو ملک کی عوام مان لو ، چھوٹے بھائی کو ملک کا مستقبل مان لو…!
بیٹا : اب مجھے پولیٹکس سمجھ میں آگئی ، ڈیڈ ، کل رات میں نے دیکھا کہ وزیر مزدور کے ساتھ کچن میں گلے مل رہا تھا ، حکومت سو رہی تھی ، عوام کی کسی کو فکر نہیں تھی اور ملک کا مستقبل رو رہا تھا …!
محمد امتیاز علی نصرت ؔ۔ پداپلی، کریمنگر
………………………
نہیں محترمہ …!
٭ ایک خاتون نے فقیر کو پچاس پیسے کا سکہ دیتے ہوئے کہا … ’’یہ لو میری صحت کے لئے دُعا کرو…!‘‘
فقیر نے محترمہ کا چہرہ دیکھنے کے بعد جواب دیا ’’نہیں محترمہ ! آپ کے چہرے کی زردی سے پتہ چلتا ہے کہ پچاس پیسے کی دُعا آپ کیلئے کافی نہیں ہے …!!‘‘
رضیہ بیگم ۔ گنج کالونی ، گلبرگہ
………………………
اپنا سوچیئے …!
٭ ایک امریکی باپ نے نہایت درد بھرے لہجے میں اپنے نوعمر سرکش بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی:’’بیٹا! اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ میں اور تمہاری مما ہمیشہ تو تمہاری رہنمائی کیلئے دنیا میں نہیں بیٹھے رہیں گے۔ ذرا سوچو کہ اگر آج میں اچانک مر جاؤں تو تم کہاں ہو گے ؟‘‘
بیٹے نے موسیقی کی دھن پر تھرکتے ہوئے جواب دیا :’’اگر آپ اچانک مرجائیں تو فکر کرنے کی ضرورت مجھے نہیں آپ کو ہوگی۔ ذرا سوچیں ،آپ کہاں ہوں گے ؟ ‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………