شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
فی الفور…!
ابھی ڈیپو سے آجاتی ہے چینی
گوالا گھر سے اپنے چل پڑا ہے
حضور اب چائے پی کر جائیے گا
ملازم لکڑیاں لینے گیا ہے
……………………………
محمد امتیاز علی نصرتؔ
شاہ پرست…!
لگاکر آگ شہر کو یہ بادشاہ نے کہا
اُٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
جُھکاکر سر کو سبھی شاہ پرست بول اُٹھے
حضور کا شوق سلامت رہے ، شہر اور بہت

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
کچھ کہاں سب !
اک غبارستان برپا کر گئی ہیں موٹریں
گرد کی موجیں اُٹھیں اور ایک طوفاں ہوگئیں
راہرو جتنے تھے سب آنکھوں سے اوجھل ہوگئے
’’خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں‘‘
……………………………
فرید سحرؔ
غزل (مزاحیہ)
کسی سے عشق لڑانا کوئی مذاق نہیں
پھر اس کے ناز اُٹھانا کوئی مذاق نہیں

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
اندھیر گردی
کچھ نہ پوچھو اُداس ہے کتنا
کتنا سہما ہوا سا رہتا ہے
دل پہ سایہ ہے لوڈ شیڈنگ کا
’’شام ہی سے بْجھا سا رہتا ہے‘‘
……………………………
شاداب بے دھڑک ؔ
غزلِ شاداب
کیسا دور آیا ہے نبھانا پڑتا ہے
جینے کی خاطر مرجانا پڑتا ہے
راس کہاں آتی ہے گدائی ہر اک کو
روز اس پیشے کو ’زخمانا‘ پڑتا ہے

شیشہ و تیشہ

محمد حسن الدین صوفیؔ
قطعہ
نیا چوزہ حماقت کررہا ہے
بڑے مرغوں کی دعوت کررہا ہے
زمیں پر پیر بھی جمنے نہ پائے
بُلندی سے شکایت کررہا ہے
………………………
اقبال شانہؔ
آزادی
ہے انھیں پیٹنے کی آزادی
اور ہمیں چیخنے کی آزادی
جب سے شادی ہوئی ہے بیگم کو
مل گئی ڈاٹنے کی آزادی
بولنے کا بھی حق نہیں ہم کو
اور انھیں کاٹنے کی آزادی

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
حُسنِ انتظام
ہر ایک عہد میں زندہ ہے میر کا مصرع
کسی سے جس کی صداقت ڈھکی چھپی نہ رہی
نظامِ برق لیا واپڈا نے ہاتھوں میں
’’پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘
……………………………
اقبال شانہ ؔ
مزـاحیہ غزل
بے دھڑک معشوق کی گلیوں میں جاسکتا ہوں میں
اور وہاں سے لوٹ کر واپس بھی آسکتا ہوں میں

شیشہ و تیشہ

محمد امتیاز علی نصرتؔ
فطرت…!
حسد ہے ، بغض ہے ، رنجش ہے ، عداوت ہے
زمانے والے کہتے ہیں یہی انسانی فطرت ہے
حقیقت میں دوستو یہ سب زمانے کی عطائیں ہیں
وگر نہ فطرتِ انساں تو محبت تھی ، محبت ہے
………………………
اقبال شانہؔ
ہاسپٹل میں عید
کس لئے چاند رات کو آخر
چھت پہ دیکھا تو تم ہوئے ظاہر
بال شب کو سکھارہے تھے کیا

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
توفیق
چاند کو ہاتھ لگا آئے ہیں اہلِ ہمت
اُن کو یہ دُھن ہے کہ اب جانبِ مریخ بڑھیں
ایک ہم ہیں کہ دکھائی نہ دیا چاند ہمیں
ہم اِسی سوچ میں ہیں عید پڑھیں یا نہ پڑھیں
……………………………
رسم دنیا بھی ہے …!!
آپ بے جرم یقیناً ہیں مگر یہ فدوی
آج اس کام پر معمور بھی مجبور بھی ہے
عید کا روز ہے کچھ آپ کو دینا ہوگا

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
پھر کسی کا امتحاں!
درپئے تقریر ہے اِک واعظِ گنبد گلو
لاؤڈ اسپیکر بھی اس کے سامنے موجود ہے
نیند کا طالب ہے اِک بیمار بھی ہمسائے میں
’’کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے‘‘
……………………………
اظہر فاروقی پروازؔ
خیالات کی ہڑبونگ
میں اور میری تنہائی اکثر یہ باتیں کرتے ہیں

شیشہ و تیشہ

انور مسعود
ترکی بہ ترکی
اپنی زوجہ سے کہا اِک مولوی نے نیک بخت
تیری تْربت پہ لکھیں تحریر کس مفہوم کی
اہلیہ بولی عبارت سب سے موزوں ہے یہی
دفن ہے بیوہ یہاں پر مولوی مرحوم کی
………………………
فرید سحرؔ
’’رمضان میں‘‘
ہم بھی نماز پڑھتے ہیں رمضان میں بہت
روزے بھی ہم تو رکھتے ہیں رمضان میں بہت
نظریں جُھکا کے چلتے ہیں رمضان میں بہت

شیشہ و تیشہ

محمد زاہد بن فیض
طبلہ یا شوہر ؟
کبھی مہندی کے طعنے سے کبھی زیور کے طعنے سے
فقط دل ہی نہیں تلی کلیجہ بھی جلاتی ہیں
بے چارہ شوہر جسے تم لوگ کہتے ہو محبت سے
یہ وہ طبلہ ہے جس کو بیویاں اکثر بجاتی ہیں
………………………
انورؔ مسعود
اے برقی رَو
پنکھے کی رُکی نبض چلانے کے لئے آ
کمرے کا بْجھا بلب جلانے کے لئے آ

شیشہ و تیشہ

شاہدؔ عدیلی
غزل (مزاحیہ)
بے حیائی کا ہر اک سمت نظارا ہے میاں
نہ تو برقعہ ہے بدن پر نہ دوپٹہ ہے میاں
بالیاں کان میں ہیں چہرا بھی چکنا ہے میاں
جس کو دوشیزہ میں سمجھا تھا وہ لڑکا ہے میاں
ایک تو شعر مسلسل وہ سناتا ہے میاں
ہے ستم اُس پہ ترنم بھی کھٹارا ہے میاں
واعظ میں دیکھ لی واعظ کی بھی جانبداری
رُخ اُسی سمت ہے جس سمت زنانہ ہے میاں

شیشہ و تیشہ

فرید سحرؔ
بزنس…!
کچھ ایسے لوگ رہتے ہیں اپنے سماج میں
جس طرح کیڑے ہوتے ہیں گھر کے اناج میں
شادی کو اور وواہ کو بزنس سمجھتے ہیں
لاکھوں کا سودا کرتے ہیں بیٹوں کے کاج میں
………………………
دلؔ حیدرآبادی
غزل (مزاحیہ)
جورو کا جو پکّا غلام ہوتا ہے
سسرال میں عالی مقام ہوتا ہے
رہتا ہے ہاتھ اُس کا سدا ہی ناک پر
وہی جس کو شدید زکام ہوتا ہے

شیشہ و تیشہ

فرید سحرؔ
اچھی دھلائی…!
جس کی بیٹی کی شادی ہوتی ہے
اس کی اچھی دُھلائی ہوتی ہے
اور جو کرتا ہے شادی بیٹے کی
اس کی تگڑی کمائی ہوتی ہے
………………………
لیڈرؔ نرملی
مزاحیہ غزل
خوش فہمیوں میں ہونا کہیں مبتلا نہیں
تِرپٹ ہے اصل میں وہ تجھے دیکھتا نہیں
اس شہر میں کراٹے کی ماہر ہیں لڑکیاں
سب کہتے ہیں ’’بہن جی ‘‘ کوئی چھیڑتا نہیں

شیشہ و تیشہ

فرید سحرؔ
سسرے کو ٹوپی…!
سسرال سے اب آئے ہیں دعوت اُرا کے ہم
میکے سے اُن کو لائے ہیں تحفے بھی پاکے ہم
حالانکہ باپ ہم بنے بیٹے کے اک مگر
سُسرے کو ٹوپی ڈالے ہیں خرچہ کراکے ہم
………………………
لیڈرؔ نرملی
ذرا دیر لگے گی …!
سُسرے کو پٹانے میں ذرا دیر لگے گی
چیک ساء کرانے میں ذرا دیر لگے گی
لیڈرؔ کوئی اُوٹی میں ہے تو کوئی گوا میں

شیشہ و تیشہ

محمد شفیع مرزا انجم حیدرآبادی
قطعہ
بدل گئی ہے زمانے کی اب روش یارو
جو ایسے ویسے ہیں ان کا ہی بول بالا ہے
نچا رہا ہے وہ تم کو بھی اپنی اُنگلی پر
نہیں ہے غیر وہ انجمؔ تمہارا سالا ہے
………………………
محمد انیس فاروقی راہیؔ
ایک مزاحیہ نظم
(ساحر کی روح سے معذرت کے ساتھ)
چلو اچھا یہی ہے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

شیشہ و تیشہ

محمد شفیع مرزا انجم حیدرآبادی
قطعہ
سراپا اس کا کچھ ایسا دکھائی دیتا ہے
بڑا عجیب سا نقشہ دکھائی دیتا ہے
سلیم کہتے ہیں دنیا کے سارے لوگ جسے
مگر قریب سے سلمہ دکھائی دیتا ہے
………………………
محمد ایوب خان جھاپڑؔ(کویت)
کیوں ؟
ہر طرف آپ کے فسانے کیوں
آپ اتنے بھی دیڑھ شانے کیوں
جھانکنا گھر سے چھت پہ اترانا

شیشہ و تیشہ

محمد شفیع مرزا انجم حیدرآبادی
قطعہ
سراپا اس کا کچھ ایسا دکھائی دیتا ہے
بڑا عجیب سا نقشہ دکھائی دیتا ہے
سلیم کہتے ہیں دنیا کے سارے لوگ جسے
مگر قریب سے سلمہ دکھائی دیتا ہے
………………………
محمد ایوب خان جھاپڑؔ(کویت)
کیوں ؟
ہر طرف آپ کے فسانے کیوں
آپ اتنے بھی دیڑھ شانے کیوں
جھانکنا گھر سے چھت پہ اترانا

شیشہ و تیشہ

محمد شفیع مرزا انجم حیدرآبادی
قطعہ
اب کسی کی نوجوانی کا اجارہ چاہئے
اس ضعیفی میں حسینوں کا سہارا چاہئے
پیر لٹکے ہیں قبر میں اور ہے شادی کا شوق
خوبصورت سولہ سالہ انکو بیوہ چاہئے
………………………
ڈاکٹر خواجہ فریدالدین صادق ؔ
مزاحیہ غزل
دور آیا ہے پھر الیکشن کا
نیک لیڈر کے اک سلکشن کا
اچھا لیڈر اگر نہ مل پائے

شیشہ و تیشہ

ڈاکٹر معین امر بمبوؔ
لیڈر
نہ فکر عوام کی نہ دیش کے وقار کی فکر
ہے لیڈروں کو فقط اپنے اقتدار کی فکر
غریب عوام کو بھٹکا کے ووٹ لیتے ہیں
بتا کے نوٹوں کو بہلا کے ووٹ لیتے ہیں
گھروں پہ لوگوں کے جا جا کے ووٹ لیتے ہیں
بڑے خلوص سے سمجھا کے ووٹ لیتے ہیں
یہ رہنما بڑے اعلیٰ صفات رکھتے ہیں
پڑا جو وقت تو غنڈوں کو ساتھ رکھتے ہیں

شیشہ و تیشہ

ڈاکٹر معین امر بمبوؔ
لیڈر
نہ فکر عوام کی نہ دیش کے وقار کی فکر
ہے لیڈروں کو فقط اپنے اقتدار کی فکر
غریب عوام کو بھٹکا کے ووٹ لیتے ہیں
بتا کے نوٹوں کو بہلا کے ووٹ لیتے ہیں
گھروں پہ لوگوں کے جا جا کے ووٹ لیتے ہیں
بڑے خلوص سے سمجھا کے ووٹ لیتے ہیں
یہ رہنما بڑے اعلیٰ صفات رکھتے ہیں
پڑا جو وقت تو غنڈوں کو ساتھ رکھتے ہیں