شیشہ و تیشہ

محمد شفیع مرزا انجم حیدرآبادی
قطعہ
بدل گئی ہے زمانے کی اب روش یارو
جو ایسے ویسے ہیں ان کا ہی بول بالا ہے
نچا رہا ہے وہ تم کو بھی اپنی اُنگلی پر
نہیں ہے غیر وہ انجمؔ تمہارا سالا ہے
………………………
محمد انیس فاروقی راہیؔ
ایک مزاحیہ نظم
(ساحر کی روح سے معذرت کے ساتھ)
چلو اچھا یہی ہے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ تم کو قلق ہوگا سوچ کر بے روزگاری کا
نہ مجھ کو خوف ہوگا تم سے اپنی شرمساری کا
میں لونگا ڈھونڈ کوئی مشغلہ پھر غم گساری کا
چلو اچھا یہی ہے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ کانٹوں گا میں چکر روز دفتر روزگاری کے
نہ ہی سننا پڑے گا مجھ کو طعنے سالے ، سالی کے
نہ ہونگے تبصرے گھر میں ہماری خشک سالی کے
چلو اچھا یہی ہے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ سوچو تم کبھی سسرال کو میکے سے آنے کا
نہ سوچوں میں کبھی ملنے تمہیں سسرال جانے کا
بچے گا اس طرح کچھ خرچ اپنے آنے جانے کا
چلو اچھا یہی ہے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
چلو یہ مشورہ ساحرؔ کا ہم بھی مان لیتے ہیں
کہ … وہ افسانہ جسے انجام تک لانہ نہ ہو ممکن
اُسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اچھا یہی ہے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
چلو یہ مشورہ ساحرؔ کا ہم بھی مان لیتے ہیں
چلو میکے کی نکڑ پر تمہیں ہم چھوڑ آتے ہیں
پھر آکر اپنے بستر پر رضائی تان لیتے ہیں
چلو اچھا یہی ہے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
………………………
خوش نصیب کون ہے …!
٭ الہٰ آباد میں ایک کل ہند نمائش منعقد ہوئی تھی اُس نمائش کی ایک مخصوص ادبی نشست میں شاعروں ادیبوں، راجے مہاراجے ، نواب اور بڑے بڑے لوگ بھی مدعو تھے ۔ اس نشست میں اُس دور کی نامور رقاصہ و شاعرہ گوہرؔ بائی بھی مدعو تھی ۔ اکبر الہٰ آبادی نے اُس پر طنز کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا :
خوش نصیب کون ہے آج یہاں گوہرؔ کے سوا
سب کچھ اﷲ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
گوہر بائی نے جواباً یہ شعر پڑھا :
یُوں تو گوہرؔ کو میسر ہیں ہزاروں شوہر
پر پسند اُس کو نہیں کوئی اکبرؔ کے سوا
محمد امتیاز علی نصرتؔ۔ پداپلی
………………………
ہے کوئی بہادر ؟
٭ سرکس کے شو میں ایک ایٹم پیش کیا جارہا تھا جس میں ایک خوبصورت جوان لڑکی اپنے منہ میں فائیو اسٹار چاکلیٹ پکڑے اسٹول پر بیٹھی ہے سامنے سے ایک شیر آتا ہے اور لڑکی کے منہ سے چاکلیٹ کترکتر کر کھالیتا ہے ۔تماشائی دم بخود ہوکر اس ایٹم کو دیکھ رہے تھے اور بے ساختہ تالیاں بجاکر داد دے رہے تھے ۔ ایٹم کے بعد رنگ ماسٹر تماشائیوں کی طرف دیکھ کر بولا ’’بھائیو اور بہنو ! ابھی آپ کے سامنے ایک خطرناک ایٹم پیش کیا گیا ۔ آپ میں سے ہے کوئی بہادر جو اس ایٹم میں حصہ لے‘‘۔
تماشائیوں میں سے ایک نوجوان اُٹھ کر ہاتھ اُٹھاتے ہوئے آگے آگیا اور بولا ’’میں یہ ایٹم کروں گا ‘‘۔ رنگ ماسٹر خوش ہوکر بولا ’’شاباش نوجوان ! لو یہ چاکلیٹ اپنے مُنہ میں پکڑکر اسٹول پر بیٹھ جاؤ ، ابھی شیر آئے گا ‘‘۔
نوجوان گھبراکر بولا ’’نہیں ! نہیں !! میں لڑکی کا نہیں ، میں تو شیر کا رول کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔
رؤف الدین ۔ملک پیٹ
………………………
حیرت ہے !
٭ میاں اور بیوی نے شادی کی 5ویں سالگرہ پر سوچا کہ یونیورسٹی کے اسی پارک میں چلیں جہاں وہ پہلی بار ملے تھے۔ چنانچہ شادی کی سالگرہ کے دن دونوں وہاں پہنچے اور پارک میں ایک درخت کے نیچے بنچ پر بیٹھ گئے۔انکے قریب ہی کچھ دور ایک اور بنچ پر ایک عورت ہاتھ میں شراب کی بوتل لئے، نشہ میں غرق بیٹھی تھی۔
میاں نے اس عورت کو غور سے دیکھا۔ اور اپنی بیوی سے کہنے لگا: ’’ ڈارلنگ ! جانتی ہو۔ یہ میری کلاس فیلو اور سابقہ گرل فرینڈ ہے۔ جب سے میںنے اسے چھوڑ کر تمھارے ساتھ شادی کی ہے۔ تب سے یہ اسی پارک میںروزانہ شراب کی بوتل لیے آتی ہے اور یونہی نشے میں غرق رہتی ہے ‘‘۔
’’اچھا ‘‘ بیوی نے حیرانگی سے کہا : ’’حیرت ہے کہ کوئی اتنے برس تک بھی خوشی منا سکتا ہے!‘‘
حبیب عکرمہ العیدروس ۔ ممتاز باغ
……………………………