شیشہ و تیشہ

فرید سحرؔ
بزنس…!
کچھ ایسے لوگ رہتے ہیں اپنے سماج میں
جس طرح کیڑے ہوتے ہیں گھر کے اناج میں
شادی کو اور وواہ کو بزنس سمجھتے ہیں
لاکھوں کا سودا کرتے ہیں بیٹوں کے کاج میں
………………………
دلؔ حیدرآبادی
غزل (مزاحیہ)
جورو کا جو پکّا غلام ہوتا ہے
سسرال میں عالی مقام ہوتا ہے
رہتا ہے ہاتھ اُس کا سدا ہی ناک پر
وہی جس کو شدید زکام ہوتا ہے
دیکھا جو مسکرا کے بیوی نے ذرا
شوہر کا وہیں کام تمام ہوتا ہے
سر جھکائے رہتے ہیں جس کے آگے ہم
اور نہیں کوئی وہ حجام ہوتا ہے
پیار کرنا عہدے سے اور کرسی سے
لیڈروں کا بس یہی تو کام ہوتا ہے
گُڈّو گُڈی مُنّا و مُنّی وغیرہ
شادی کا اے دلؔ یہ انجام ہوتا ہے
………………………
وہ خود ہی …!
٭ بیوی نے شوہر سے کہا: اجی ! ہمارے گھر کے سامنے نیا کرایہ دار آنے والا ہے ، بہتر ہے کہ درمیان میں ایک پردہ لگائیں تاکہ وہ مجھے دیکھ نہ سکے ۔
شوہر نے جواب دیا : اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر ایک بار وہ تمھیں دیکھ لے تو وہ خود ہی پردہ لگائے گا …!
شعیب علی فیصل ۔ رامیاباؤلی ، محبوب نگر
………………………
اور ٹانگوں والا …!
٭ بازار میں ایک پھل والا آواز لگا رہا تھا : ’’لنگڑا آم پچاس روپئے کلو ‘‘ ۔
ایک چھوٹا بچہ : ’’اور ٹانگوں والے آم کتنے روپئے کیلو ہیں …!!‘‘
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
………………………
لکھ پتی …!
٭ تین دوست آپس میں گپ شپ لڑا رہے تھے سوال ہوا کہ کسی دن سو کر اُٹھنے پر ہمکو یہ پتہ چلے کہ ہم لکھ پتی بن گئے ہیں تو ہم کیا کریں گے ۔
ایک نے کہا : ہم تو سیدھے لندن جائیں گے اور خوب مزہ کریں گے ۔
دوسرے نے کہا : ہم کسی فائدہ بخش کاروبار میں روپیہ لگائیں گے ۔
تیسرے نے کہا : ہم تو پھر سے سونے کی کوشش کریں گے تاکہ اور کئی لاکھ مل جائیں…!!
محمد امتیاز علی نصرت ۔ پداپلی ،کریمنگر
………………………
یادداشت …!
٭ طلبا کو امریکہ کی کھوج کے بارے میں بتاتے ہوئے جغرافیہ کے ماسٹر نے کہا … امریکہ کی کھوج کے لئے یہ کام کولمبس نے آج سے 400 سال پہلے کیا تھا ۔
ایک طالب علم نے تعجب سے کہا … واہ ! کمال ہے ؟
ماسٹر جی نے پوچھا : اس میں کمال کی کیا بات ہے ؟
طالب علم : آپ کی یادداشت ، ماسٹر جی!
زاہد حُسین قندھارکر۔ ریاست نگر
………………………
کیا خدمت کرسکتا ہوں؟
٭ ایک صاحب کو ان کے سکریٹری نے انٹرکام پر اطلاع دی کہ ایک خوبصورت سی لڑکی آپ سے ملنے آئی ہے ۔ تو ان صاحب نے کہا ’’اسے چند سکنڈ کے بعد بھیج دینا ‘‘
اس کے بعد انھوں نے ریسیو ر اُٹھالیا ۔ اسی اثناء میں وہ لڑکی اندر داخل ہوگئی ۔وہ صاحب باتیں کرنے لگے : ’’ہاں بھئی وزیراعلیٰ اگر بات کرنا چاہتے ہو تو کہو ، میں مصروف ہوں۔ پھر کسی وقت بات کریں ۔ اور گورنر صاحب سے کہو ۔ میں فارغ ہوکر ان سے ملونگا اور ہاں وہ پچاس لاکھ کے چیک کا کیا ہوا ؟ کیش بنا یا نہیں ؟ اچھا جلدی سے مجھے اس کے بارے میں معلوم کرکے بتاؤ ، خدا حافظ ‘‘ ۔
اب انھوں نے پلٹ کر لڑکی سے پوچھا : جی فرمائیے ! میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟
لڑکی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا :’’میں ٹیلی فون کے محکمہ میں ملازم ہوں اور آپ کا ٹیلی فون ٹھیک کرنے آئی ہو ں جو کل سے ڈیڈ ہے !‘‘
محمد عبدالوسیع شاداب ۔ کوٹگیر ، نظام آباد
……………………………