شیشہ و تیشہ

محمد شفیع مرزا انجم حیدرآبادی
قطعہ
سراپا اس کا کچھ ایسا دکھائی دیتا ہے
بڑا عجیب سا نقشہ دکھائی دیتا ہے
سلیم کہتے ہیں دنیا کے سارے لوگ جسے
مگر قریب سے سلمہ دکھائی دیتا ہے
………………………
محمد ایوب خان جھاپڑؔ(کویت)
کیوں ؟
ہر طرف آپ کے فسانے کیوں
آپ اتنے بھی دیڑھ شانے کیوں
جھانکنا گھر سے چھت پہ اترانا
خود نمائی کے یہ بہانے کیوں
کل جنہیں زعم تھا بہت خود پہ
پٹ گئے آج وہ نجانے کیوں
یہ زمیں ہے زمیں محبت کی
اس پہ نفرت کے شامیانے کیوں
ہم کھٹکتے ہیں سب کی نظروں میں
کیا پتہ کیا خبر نجانے کیوں
میں نے سنجیدہ بات کی تم سے
لگ گئے آپ ہنہنانے کیوں
اس نے ویسے ہی ہنس کے دیکھا تھا
آپ جھاپڑؔ ہوئے دوانے کیوں
………………………
بجلی کی کٹوتی…!
٭ برصغیر کے کسی شہری نے ایک دیہاتی سے پوچھا: ’’جس طرح شہر میں بجلی کی کٹوتی ہوتی ہے، کیا یہی صورتِ حال دیہات کی بھی ہے؟‘‘
دیہاتی نے جواب دیا: ’’میرے بھائی! دیہات میں تو بجلی میڈیسن (دَوا کی خوراک) کی طرح دی جاتی ہے، یعنی تین گھنٹے ناشتہ سے پہلے، ایک گھنٹہ دوپہر کے کھانے کے بعد اور آدھا گھنٹہ رات کو سونے سے پہلے‘‘۔
عبداﷲ محمد عبداﷲ ۔ چندرائن گٹہ
………………………
کس کے نام پر …!
فقیر فون پر : پیزا ہٹ ؟
آپریٹر : جی سر !
فقیر : 3 لارج پیزا ، 6 چکن ونگز اور دو پیپسی۔
آپریٹر : کس کے نام پر بھیجوں ؟
فقیر : اوپر والے کے نام پر !
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
پبلسٹی…!
٭ ایک کنجوس رئیس اپنی زندگی کے آخری ایام میں وصیت نامہ لکھوا رہا تھا ۔ اس نے وکیل سے کہا : اور یہ لکھو کہ میرے ہر اُس ملازم کو جو پانچ سال سے زیادہ عرصہ سے میرے ہاں کام کررہا ہے اُسے میری جائیداد میں سے پانچ ہزار روپئے دیئے جائیں ۔
جو وکیل وصیت لکھ رہا تھا اُس نے متاثر ہوکر کہا : ’’یہ تو اپ نے کمال ہی کردیا۔ ایسی سخاوت کی مثال اس دور میں مشکل ہی سے ملے گی ‘‘۔
کنجوس دولتمند آدمی نے رازدارانہ لہجے میں کہا ،’’ سخاوت وخاوت کچھ نہیں ہے۔ یہ تو صرف پبلسٹی کیلئے ہے ، ورنہ میرے ہاں کوئی ملازم ایسا نہیں ہے جو ایک سال سے زیادہ عرصہ سے کام کررہا ہو ‘‘۔
محمد امتیاز علی نصرت ؔ ۔ پداپلی
………………………
کیا ضرورت تھی…!
٭ ایک بے وقوف دوسرے (بیوقوف ) سے : سنا تم نے ایک آدمی کنویں میں گرا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا …!
دوسرا بیوقوف : جب وہ کنویں میں گرا ہی تھا تو جان سے ہاتھ کیوں دھویا …! پانی سے دھولیتا …!!
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
………………………
صرف نام !
٭ ایک دانشور کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔ تقریب کے آخر میں ان کو بتایا گیا کہ لوگ ان سے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں ۔ انھوں نے کہا۔ ’’لوگ کاغذ پر لکھ کر مجھ سے سوال کریں ، میں مائیک میں جواب دیتا ہوں‘‘۔
کئی سوالوں کے بعد ایک پرچی اُن کے ہاتھ میں آئی جس پر صرف ایک لفظ ’’گدھا‘‘ لکھا تھا۔
دانشور تھوڑی دیر حیران رہ گئے پھر سمجھ گئے کہ معاملہ کیا ہے ۔ اِس کے بعد انھوں نے کہا : ’’اب میرے پاس ایک ایسی پرچی آئی ہے جس میں کسی صاحب نے اپنا نام تو لکھ دیا ہے لیکن سوال لکھنا بھول گئے ہیں‘‘۔
نظیر سہروردی ۔ راجیونگر
………………………