شیشہ و تیشہ

محمد شفیع مرزا انجم حیدرآبادی
قطعہ
اب کسی کی نوجوانی کا اجارہ چاہئے
اس ضعیفی میں حسینوں کا سہارا چاہئے
پیر لٹکے ہیں قبر میں اور ہے شادی کا شوق
خوبصورت سولہ سالہ انکو بیوہ چاہئے
………………………
ڈاکٹر خواجہ فریدالدین صادق ؔ
مزاحیہ غزل
دور آیا ہے پھر الیکشن کا
نیک لیڈر کے اک سلکشن کا
اچھا لیڈر اگر نہ مل پائے
تم کو حق ہے میاں ریجکشن کا
جُڑنا گر ہے تمہیں حکومت سے
یہ ہے موقع میاں کنکشن کا
جس کو دیکھو وہ رائے دیتا ہے
یہ ہے موسم نیا سجیشن کا
لیڈراں رُونا رُو ریں کیا کیا کی
ایک رُونا بھی ہے کرپشن کا
لے کے پیسے جو ووٹ دیتے ہیں
اُن کا موسم ہے یہ کلکشن کا
گر بدلنا ہے بدلو بھی صادقؔ
اس حکومت کے اک روٹیشن کا
………………………
کیوں کہ …!
٭ ادھیڑ عمر کے شوہر نے اپنی نوجوان بیوی سے محبت جتاتے ہوئے کہا …!
ابھی تک میری زندگی سے دور کیوں رہیں ؟
یہ سن کر بیوی نے طنزیہ جواب دیا : ’’کیونکہ حضور کی بیس برس کی عمر میں تو میں پیدا بھی نہیں ہوئی تھی …!!‘‘
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
………………………
وہاں عوام ہوتے ہیں
٭ علی سردار جعفری ایک محفل میں آم چوس رہے تھے ۔ آم چوستے چوستے مجازؔ سے پوچھا ’’ یار روس میں آم بھی تو ہونگے ‘‘
مجاز نے برجستہ کہا ’’ نہیں ! وہاں عوام ہوتے ہیں‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
بادب بم دھماکہ…!
٭ گرلز کالج کے باہر بم بلاسٹ کے بعد نیوز رپورٹر زخمی لڑکی کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھا : ’’ جب بم گرا تو کیا وہ ایک دم پھٹ گیا ؟‘‘
زخمی لڑکی نے غصے سے کہا : ’’ جی نہیں ! وہ رینگتے ہوئے میرے قریب آیا اور نہایت با ادب ہو کر پیار سے بولا :
’’ باجی . . . ٹھاہ ! ‘‘
حبیب ہادی بن احمد رفیع ۔ چندرائن گٹہ
………………………
آم لیٹ
ایک دوست ( دوسرے سے ) : آملیٹ کسے کہتے ہیں ؟
دوسرا دوست : جو آم لیٹ پکے ، اُسے آملیٹ کہتے ہیں ۔
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
…………………………
بدل دونگا!
شوہر : ’’اگر اس ملک کو چلانے کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں آجائے تو میں سب کچھ بدل دونگا‘‘۔
بیوی : سب کچھ بعد میں بدل لینا سب سے پہلے تم اپنا پائجامہ بدل لو ، صبح سے اُلٹا پہنے ہوئے گھوم رہے ہو‘‘۔
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر ۔ نظام آباد
………………………
گدھوں کیلئے …!!
٭ ایک صاحب گھوڑے پر بیٹھ کر بازار سے گذر رہے تھے کہ لب سڑک ایک آدمی رستے کا مال سستے میں ، رستے کا مال سستے میں آوازیں لگا رہا تھا ۔ یہ آواز سنکر گھڑ سوار وہاں پہنچا اور آوازیں دینے والے سے دریافت کرنے لگا کہ کیا بیچ رہے ہو …؟
اُس نے جواب دیا کہ صرف ایک ہزار روپئے میں گرائجویٹس کی ڈگری خرید کر گرائجویٹ بن جائیے ۔ گھڑ سوار نے اپنے لئے ایک ڈگری لی اور آگے بڑھ گیا ۔ تھوڑی دور جانے کے بعد اُس گھڑ سوار کو گھوڑے کیلئے بھی ایک ڈگری خریدنے کا خیال اور وہ دوبارہ ڈگری فروش کے پاس آکر کہنے لگا ۔ میں اپنے گھوڑے کو بھی گرائجویٹ بنانا چاہتا ہوں لہذا اسے بھی گرائجویشن کی ایک ڈگری دیدو ۔یہ سنکر فوراً ڈگری فروش کہنے لگا …! معاف کرنا صاحب ! یہ گرائجویشن کی ڈگری گھوڑوں کیلئے نہیں بلکہ گدھوں کیلئے ہے…!
محمد اختر حسین ۔ سعیدآباد کالونی
………………………