ضمیر کی آواز…!!

محمد ابراہیم ‘ دوبئی

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اولادکی شکل میں ایک انمول نعمت عطا کیا ۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے بہت کم ہے ۔ اگر ان حضرات کو دیکھیں جو اس انمول نعمت سے محروم ہیں تو اس قیمتی نعمت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔ اس سے ان کے خیالات اور ان کی چاہت کا پتہ چلتا ہے ۔

جسے اللہ رکھے …

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ لڑکی جس کا نام ثمن تھا، بہت خوبصورت تھی۔ وہ ہمیشہ بڑوں کی عزت کرتی تھی اور غیبت نہیں کرتی تھی اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے راضی ہوتا ہے جس سے اس کی مخلوق راضی ہو، لیکن پھر شاید اس کی آزمائش کا دن آگیا۔ اسے شکار کا بہت شوق تھا، وہ جنگل میں شکار کرنے گئی اور شکار ڈھونڈتے ڈھونڈتے رات ہوگئی۔ پرندے اپنے اپنے گھونسل

احسان کی قید

لوگوں نے ایک دانا سے کہا : کل فلاں شخص آپ کی نسبت ایسی بری بری باتیں کہہ رہا تھا جو آپ کو سخت بدنام کرنے والی ہیں۔ دانا نے کہا : تم لوگ تو اچھی طرح مجھ سے واقف ہو، کیا ان باتوں کے متعلق تمہیں یقین آسکتا ہے کہ وہ درست ہیں؟

ہاتھی کے گلے میںڈھولک

ایک دفعہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کسی میراثی پر خوش ہوکر روپئے اور خلعت کے ساتھ اسے ایک ہاتھی بھی بخش دیا ۔ مہاراجہ نے تو بڑی فیاضی دکھائی ۔ مگر میراثی بہت گھبرایا کہ اسے روز دانہ چارہ کہاں سے کھلاوں گا اور خدمت کیلئے نوکر کہاں سے لاوں گا ۔ کچھ سوچنے کے بعد میراثی نے ایک ڈھولک ہاتھی کے گلے میں باندھ کر اسے کھلا چھوڑ دیا۔ ہاتھی جس طرح ہر ر

اِسکول کا رکشہ والا

کتنا پابند ہے اسکول کا رکشہ والا
وقت میں بند ہے اسکول کا رکشہ والا
آٹھ دس بچوں کو یہ لاتا ہے لے جاتا ہے
حوصلہ مند ہے اسکول کا رکشہ والا
٭

بچے اسکول کے تیار کھڑے رہتے ہیں
اس کی گھنٹی پہ سدا کان پڑے رہتے ہیں
سب کے کام آتا ہے اسکول کا رکشہ والا
لوگ دُنیا میں کئی چھوٹے بڑے رہتے ہیں
٭
گنگناتا ہے کوئی گیت کبھی گاتا ہے

بات کرنے کا سلیقہ

کسی گاؤں میں ایک غریب عورت رہا کرتی تھی ۔ اس کے چھ بچے تھے ۔ وہ روزانہ کھیت سے مولی توڑنے جاتی تھی ۔ ایک دفعہ وہ مولی لے کر واپس آرہی تھی کہ اسے ایک غار کے اندر سے کھسر پھسر کی آوازیں آنے لگیں ۔ وہ اندر گئی تو اندر بارہ آدمی بیٹھے ہوئے تھے وہ سب آپس میں لڑ رہے تھے ۔ اس عورت کو دیکھتے ہی وہ سب آرام سے بیٹھ گئے اور کہنے لگے ۔ اماں بتاؤ!

چیچک کا تریاق

دسویں صدی عیسوی میں یہ وبا مشرقی ادنی اور شرق اوسط میں عام ہوچکی تھی اور طبیب اس کے علاج سے عاجز تھے۔ اس موقع پر اسلام کے مشہور طبیب حکیم ابو بکر محمد بن زکریا رزای نے چیچک کا کامیاب علاج تجویز کیا۔ اس مرض پر ایک مستقل کتاب لکھی جس میں مرض کے تمام پہلوئوں پر مفصل بحث کی۔ چنانچہ اٹھارھویں صدی تک مشرق میں حکیم محمد بن زکریا کے تجویز کیے

امتحانات کا زمانہ اور نقل نویسی

ان طلبہ میں بہادری، ایمانداری اور ہمدردی کے جذبات کی بھی پیمائش کی گئی۔ وہ طلبہ جو اوپر کے آدھے حصے کے نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے اور جنہیں Academic Heroes کا خطاب دیا گیا تھا، انہوں نے گزشتہ دنوں میں نقل کرنے کی نفی کی تھی اور آئندہ بھی وہ اس بات کا ارادہ رکھتے تھے، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نقل کرنے کا موقع ملے بھی تو وہ ایسا نہیں کر

کیا آپ جانتے ہیں

بنگلہ دیش میں جنگلی ہاتھی پکڑنے کی ترکیبوں کو کھیدا کہتے ہیں۔ کھیدے میں حصہ لینے والے لوگ ہاتھی کی طرف سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ جنگلی ہاتھی بہت طاقتور اور خطرناک جانور ہوتا ہے۔ ہاتھی فطرتاً بہت چالاک اور کینہ پرور ہوتا ہے۔ کسی سے دشمنی ہوجائے تو عمر بھر اس کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ ہاتھیوں کے غول پانی کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ کسی

سمندری شہزادہ

ایسے میں اس کا پاؤں ایک نرم اور سفید جھاگ کی طرح کی چیز پر پڑا۔ وہ گھبرا گیا پھر جب اس نے قریب آ کر دیکھا تو وہ حیران رہ گیا۔ یہ ایک خوبصورت اور چھوٹا سا انسان نما جانور تھا، جس کے بازوؤں کی طرف دو سنہری پر تھے، شاید اسے سمندر میں اٹھنے والی اونچی لہروں نے کنارے پر پھینک دیا تھا۔ وہ بیہوش تھا۔ احمد نے اسے اٹھایا اور اپنی جھونپڑی میں

ریل کا کھیل

آؤ بھائی، کھیلیں کھیل
میں انجن تم بن جاؤ ریل
منی، گڈی، ببلو آؤ
ریل کے تم ڈبے بن جاو
آو جلد آؤ بھائی
گارڈ نے ہری جھنڈی دکھائی
دیکھو سیٹی تیز بجانا
مسافروں کو جلد پہنچانا
چھک چھک چھک چھک
چھک چھک چھک چھک
کرلو اپنا ٹکٹ تم بک
دیکھو کہیں نہ جاؤ رک
انجن بھیا تیز چلانا
دیکھو کہیں تم گرنہ جانا
دلی ابھی دور ہے بھائی