بزرگ مور کا ’’ جواب شکوہ ‘‘

ایک روز ایک مور نے اپنے جنگل کے ایک بزرگ مور سے شکایت کی کہ ہم موروں کی آواز اللہ تعالیٰ نے بڑی خراب بنائی ہے۔ دیکھو بلبل کیسی خوش الحانی سے موصوف ہے، ہر ایک آدمی اس کی آواز سن کر خوش ہوتا ہے اور جب میں بولتا ہوں تو منہ کھولتے ہی میری آواز پر لوگ میرا مذاق اُڑاتے ہیں۔

مینڈک کی دنیا بڑی عجیب …!!

بچو! مینڈک ایک انوکھا جانور ہے۔ یہ Amphilia یعنی ریڑھ والے جانوروں میں شمار ہوتا ہے یہ پانی اور خشکی دونوں جگہوں پر رہ سکتا ہے۔ مینڈک دنیا کے ہر خطّے میں پایا جاتا ہے۔ البتہ یہ سمندر کے کھارے پانی میں زندہ نہیں رہ پاتا ہے۔ ندیوں کے کنارے تالابوں، نہروں اور پوکھروں میں رہنے والا مینڈک قدرت کا ایک انمول عطیہ ہے۔

لفظ لفظ موتی

٭ دوسروں کو عزت سے دیکھوگے تو خود ان کی نظر میں معزز بن جاؤ گے۔
٭ پُرخلوص دعاؤں جیسا کوئی اور تحفہ نہیں۔
٭ تجربہ ہی نئی تعمیر کی بنیاد ہوتا ہے۔
٭ شہرت قربانی سے ملتی ہے، دھوکے سے نہیں۔
٭ نیکی اور بدی میں فرق کرنا، انسان کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔
٭ آزادی کی تکلیف‘ غلامی کے آرام سے بہتر ہے۔

آزمـائـش

کسی شہر میں ایک غریب مچھیرا رہا کرتا تھا۔ وہ مچھلیاں بیچ کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ ایک دن وہ مچھلیاں پکڑ رہا تھا کہ اچانک اس کی چھری پانی میں گر گئی۔ وہ رونے لگا۔ اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ دوسری چھری خرید سکے۔ اتنے میں انسان کی شکل میں اسے ایک فرشتہ دکھائی دیا۔ اس نے مچھیرے سے رونے کی وجہ پوچھی۔ جب اسے یہ معلو

کمپیوٹر

رحمن جامی

دُنیا ساری مُٹھی میں ہے ہاتھ میں ہے کمپیوٹر
اَب تو بچو دیکھو تم ہر بات میں ہے کمپیوٹر
دوری ہو یا نزدیکی ہو ساتھ ہمارے یہ ہے
رشتے ناتے پاس ہیں سارے ساتھ میں ہے کمپیوٹر
اسکے بناء اب چَین نہیں ہے جیون کیسے بیتے
ہم ہیں مُسافر اور ہمارے ساتھ میں ہے کمپیوٹر
کوئی رُکاوٹ روک نہیں سکتی ہے اپنی ترقی

پرندے

اک پیڑ پہ ہے کتنے پرندوں کا بسیرا
کہتا ہے کوئی کہ یہ پیڑ ہے میرا
ہیں رنگ جدا سب کے الگ بولیاں سب کی
مل جل کے رہا کرتی ہیں یہ ٹولیاں سب کی
ہر صبح نکل پڑتے ہیں روزی کی طلب میں
حاصل کریں رزق اپنا یہ خوبی ہے سب میں
سردی ہو کہ گرمی ہو یا بارش کا زمانہ
جنگل میں نکل پڑتے ہیں چگنے کو یہ دانہ
اڑتے ہی چلے جاتے ہیں کچھ دور ہوا میں

اقوال زرین

٭ خاموش اور کم گو انسان کا ہر وقت اور ہر جگہ استقبال ہوتا ہے۔
٭ غم، آدھا بڑھاپا ہے۔
٭ ہر مشکل انسان کی ہمت کا امتحان لیتی ہے۔
٭ وقت کا ہر لمحہ سونے کی طرح ہے۔
٭ خوبصورتی چند روز کی مہمان ہوتی ہے۔
٭ استاد کی مار ماں باپ کے پیار سے بہتر ہے۔
٭ جو لوگ شیطان کے دوست ہوتے ہیں، وہ نیک لوگوں کو وقت پر دھوکہ دیتے ہیں۔

بیمار شیر

کسی جنگل میں ایک شیر رہتا تھا ۔ اتفاق سے وہ بیمار ہوگیا ۔ شیر جنگل کا راجا ہوتا ہے ۔ اس لئے سب جانور اسے دیکھنے کیلئے گئے ۔ جو جانور جاتا یہی کہتا مجھے آپ کی بیماری کا سن کر بہت افسوس ہوا ۔ کہئے مزاج کیسا ہے ؟ سب سے آخر میں لومڑی پوچھنے گئی مگر وہ تھی چالاک ۔غار کے باہر ہی کھڑے کھڑے بولی کہئے کیا حال ہے کئی دن سے باہر تشریف نہیں لائے ؟

امی کی نصیحت…!!

ہما کے کمرے سے اچانک دھماکے کی آواز آئی ۔ امی دوڑتی ہوئی آئیں پوچھا ہما کیا ہوا ۔ ہما نے بتایا کہ امی جان خضر چاقو سے کھیل رہا تھا میں نے اسے منع کیا تو اس نے غصے میں گلدان توڑ دیا ۔

نصابی کتابوں کے علاوہ کہانیوں کا مطالعہ بھی بچوں کیلئے مفید

والدین عام طور پر بچوں کو زیادہ کہانیاں وغیرہ پڑھنے نہیں دیتے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ کہانیوں میں دلچسپی لینے کی بدولت بچوں کی پڑھائی میں دلچسپی کم ہوگی ،لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ کورس کی کتابوں سے ہٹ کر دیگر اچھی کتابوں اور کہانیوں کا مطالعہ نہ صرف بچوں کے علم میں اضافہ کرتا ہے بلکہ اس سے ان میں بالغ نظر

صرف نام لکھا ہے …!

ایک دفعہ برناڈشا ایک بڑے مجمع کے سامنے تقریر کر رہے تھے ۔ اتنے میں ایک لفافہ آکر گرا ۔ برناڈشا نے اسے کھول کر دیکھا ۔ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر درج تھا ’’ نالائق ‘‘۔

لطائف

٭منیجر نے مالک کو آکر بتایا … ملازمت کیلئے آئے ہوئے نوجوانوں میں سے ایک کا دعوی ہے کہ اس نے ایک بار شیر کے منہ میں ہاتھ دے دیا تھا ۔ پھر تو وہ بہت بہادر ہوگا ۔ اسے فوراً چوکیدار رکھ لو … مالک نے کہا ۔ لیکن جناب … اس کا وہ ہاتھ اب ہے ہی نہیں ، منیجر نے جواب دیا ۔

مینڈکی اور رانی کہلائے …!

ایک تھی مینڈکی اور ایک تھا کھیکڑا ‘ دونوں میں تھی بڑی دوستی۔ ایک دن دونوں بیٹھے تالاب کے کنارے باتیں کررہے تھے کہ اتنے میں اونٹ اُدھر آنکلا اورپانی پینے کیلئے تالاب کی طرف چھبٹا۔ مینڈکی نے جو اُونٹ کو ادھر آتے دیکھا تو بُڑک سے پانی میں کود پڑی ۔ اتفاق کی بات تھی کہ اُونٹ نے جب تالاب میں پاؤں ڈالا تو اس کا پاؤں مینڈکی پر پڑگیا لیکن وہ

کچھ اردو زبان کے بارے میں …

اردو ترکی زبان کا لفظ ہے ۔ جس کے معنی ہیں ’’ لشکر‘‘ اسی لئے یہ لشکری زبان سے بھی موسوم ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے جب 326 ق م میں برصغیر پر حملہ کیا تو اس وقت یہ زبان وجود میں آئی ۔ اس کے لشکر میں چونکہ بہت سے خطوں کے سپاہی اور جنگجو شامل تھے اور انہیں آپسی گفتگو کیلئے دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا چنانچہ انہوں نے مشترکہ زبان کے طو

بادشاہت گدھے کو مل گئی ؟

سکندراعظم فتح کے بعد یونان گیا، وہاں ایک آدمی دنیا سے بے خبر سو رہا تھا، سکندر نے اسے لات مار کر جگایا اور کہا: ’تو بے خبر سورہا ہے، میں نے اس شہر کو فتح کرلیا ہے‘‘، اس شخص نے سکندر کی طرف دیکھا اور کہا: ’’شہر فتح کرنا انسان کا کام ہے اور لات مارنا گدھے کا کام، کیا کوئی انسان دنیا میں نہیں رہا جو بادشاہت گدھے کو مل گئی؟‘‘۔

چڑیا اور چڑا

ہمارے گھر میں چڑیوں کا جوڑا رہتا تھا۔ چڑیا نے انڈے دیئے اور کچھ دنوں بعد چڑیا کے گھونسلے سے چوں چوں کی آوازیں آنے لگیں۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ چڑیا کے انڈوں سے بچے نکل آئے ہیں۔ چڑیا بچوں کیلئے کیڑے مکوڑے اور دانا وغیرہ لاتی اور بچوں کو کھلاتی، جبکہ چڑا گھونسلے کے باہر پہرہ دیتا رہتا ، ایک دن کی بات ہے کہ ایک کوا، چڑیا کے گھونسلے کے اردگر