گرگاؤں پولیس نے افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ اسکول بس حملے میں کوئی مسلمان شامل نہیں تھا۔

گرگاؤں۔ جمعرات کے روز سے ہی سوشیل میڈیا پر یہ افواہیں پھیلائی جارہی تھی کہ چہارشنبہ کے روز راجپوتوں کی شبہہ کو بچانے کے نام پر حکومت کے خلاف کئے گئے احتجاج کے دوران گرگاؤں میں جی ڈی گوئینک ورلڈ اسکول بس میں ہوئے حملے میں گرفتار پانچ مسلمان ہیں۔گرفتار شدہ پانچوں کے نام ایسے افواہوں کو مزید پختہ کرنے میں معاون ثابت ہوئے ۔

جمعہ کی صبح گرگاؤں پولیس نے ایک وضاحت جاری کرتے ہوئے کہاکہ پھیلائی جارہی مذکورہ افواہ درست نہیں ہے۔گرگاؤں پولیس نے اپنے افیسل ہینڈل سے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہاکہ ’’ گرگاؤں میں ہریانہ روڈ وائز کی بس او راسکول بس پر ہوئے حملے کے واقعہ میں کسی بھی مسلمان کو گرفتار نہیں کیاگیا ہے ‘‘۔

راجپوت تنظیم کرنی سینا جس نے فلم پدماوتی کی اسکریننگ پر روک لگانے کی دھمکی دی تھی اس نے اتوا رکے روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہاکہ ہوسکتا ہے وہ فرقہ وارنہ فساد ہے۔ ایسے صورت میں افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ الاٹ نیوز جو کہ ایک ویب سائیڈ ہے اور اس کام عموما فرضی نیوز کا بھانڈہ پھوڑنا ہے نے دعوی کیا کہ شالینی کپور نے اپنے فیس بک پوسٹ پر سب سے پہلے یہ افواہ پھیلائی۔ اس نے اپنی شناخت ’’ کنیا شکتی کرانتی‘‘ کی ’’ کشتریہ پربھاری ‘‘ جو کہ بھارتیہ جنتا یوا مورچہ( بی جے وائی ایم)کی ہے او رکانپور میں رہتی ہے۔

بی جے پی یوتھ وینگ کے ترجمان اور نیشنل میڈیا انچارج شیوم چھبارا نے کہاکہ وہ شالیتی کپور کو جانتے بھی نہیں ہیں۔ماہر تعلیما اور رائٹر مدپو کیشوار نے بھی اپنے ٹوئٹر پر اس کو پوسٹ کیا جس کے بڑ ے پیمانے پر فالور ہیں۔ جمعہ کے روزدوپہر میں انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ ’’بھانسالی کی فلم پدماوتی کے خلاف احتجا ج کے دوران اسکولی بچوں کی بس پر پتھراؤ کرنے والے کرنے سینا کے پاچ لوگوں کے نام صدام‘ عامر ‘ فیروز‘ ندیم اور اشرف ہیں۔اگر یہ نیوز سچ ہے تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس پوسٹ کو بڑے پیمانے پرشیئر کیاگیا اور اسی طرح کے کئی ٹوئٹس فرضی ٹوئٹر اکاونٹ سے بھی پوسٹ کئے گئے۔

شبعدازاں کیشوار نے ٹوئٹ کو ہٹاتے ہوئے معذرت نامہ بھی جاری کیا ۔ انہوں نے ان دوستوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے کیشوار کو صحیح خبر دی۔اس کے علاوہ انہوں نے کہاکہ ’’ میں چینائی میں ہو اور مصروفیت کی وجہہ سے ملنی والی خبر پر غلط فہمی ہوگئی۔ میں اپنی غیرمشروط معافی پیش کرتی ہوں جس کی وجہہ سے گمراہ کن ٹوئٹ سامنے ائے۔مستقبل کے لئے ایک بڑا سبق ملا۔ ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے‘‘۔

اسی طرح کے گمراہ کن ٹوئٹس پر ٹوئٹر پر گشت کرتے رہے جس میںیہ دعوی کیاگیا کہ ’ مسلم بس پر حملے میں ملوث ہیں تو کرنی سینا کو کیوں گھسیٹا جارہا ہے۔