ریاستی وقف بورڈ کو صرف آمدنی سے مطلب، زائرین کو کئی ایک مشکلات کا سامنا، عوام کی شکایت
بانسواڑہ۔/20 ڈسمبر، ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز ) بانسواڑہ حلقہ کی مشہور و معروف درگاہ حضرت سعد اللہ حسینی ؒ واقع ورنی منڈل موضع تونی جلال پور جہاں پر مہاراشٹرا، کرناٹک، آندھرا اور تلنگانہ ریاست کے علاوہ دیگر دوسری ریاستوں سے عقیدت مند زائرین یہاں آکر اپنی منت کی نیاز کرتے ہیں، ہر سال یہاں درگاہ شریف سے ریاستی وقف بورڈ کو ایک کروڑسے زائد رقم حاصل ہوتی ہے جس کا ٹنڈر کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود درگاہ شریف کے کئی ترقیاتی کام ادھورے ہیں۔ آئے دن یہاں پر زائرین کو کئی ایک مشکلات سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ ریاستی وقف بورڈ کی لاپرواہی اور حکومت کی خاموشی سے بڑا پہاڑ درگاہ ترقیاتی کاموں سے محروم ہے جبکہ حکومتیں مندروں کی تعمیرمیں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے حال ہی میں بانسواڑہ حلقہ بیرکور منڈل موضع تما پور میں تلنگانہ تروملا دیواستھانم مندر کی تعمیر کیلئے حکومت تلنگانہ نے گزشتہ دو سال قبل 10 کروڑ منظور کئے ہیں اور حال ہی میں درگاہ حضرت جہانگیر پیراںؒ کیلئے بھی رقم منظور کی گئی لیکن درگاہ بڑا پہاڑ حضرت سید سعد اللہ حسینی ؒ میں ترقیاتی کاموں کو کیوں نہیں کیا جارہا ہے۔ کئی برسوں سے حکومتیں اس درگاہ کی ترقی کیلئے وعدے کرچکی ہیں جبکہ درگاہ کی اراضی 6سو تا 7سو ایکڑ پر مشتمل ہے۔ تحصیل ریکارڈ میں درگاہ کا احاطہ 69 سروے نمبر 274 ایکڑ اراضی کی موجودگی کی نشاندہی کی گئی۔ بڑا پہاڑ درگاہ کی ترقی اور سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنائے جانے پر سابق وزیر پوچارام سرینواس ریڈی نے سابق پرنسپل سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود عمر جلیل اور چیف ایکزیکیٹو آفیسر وقف بورڈ اسد اللہ کے ہمراہ قبل از درگاہ شریف کا دورہ کیا تھا کہ بڑا پہاڑ کو سیاحتی مرکز کے طور پر ترقی دی جائے گی، نیچے سے لیکر اوپر درگاہ احاطہ تک سی سی سڑک کی تعمیر اور سی سی بیڈ تاکہ زائرین کو درگاہ پہنچنے میں سہولت پیدا ہو صرف وعدہ ہی رہا کام نہیں آج بھی ادھورا پڑا ہے۔ اس سلسلہ میں سابق صدر ضلع وقف کمیٹی نظام آباد جاوید اکرم نے 2015 میں بڑا پہاڑ کے ترقیاتی کاموں کیلئے سی ای او وقف بورڈ عبدالحمید سے ایک کروڑ روپیوں کو منظور کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس رقم سے سی سی سڑک اور سی سی بیڈ کی تعمیر کے علاوہ حمام، باتھ روم اور مسلخ کے تعمیری کام کیلئے بھی ایک یادداشت سابق اسپیشل آفیسر ریاستی وقف بورڈ شیخ محمد اقبال کو بھی دی گئی تھی۔ اس ضمن میں شیخ محمد اقبال نے بجٹ منظور کرنے کا تیقن دیا تھا اور تعمیری کاموں کو انجام دیا جائیگا لیکن ابھی تک سی سی سڑک اور نہ دیگر تعمیری کام جوں کے توں ہیں صرف مسلخ اور باتھ روم کی تعمیر عمل میں آئی ہے اور بے تحاشہ رقم کو ہڑپ کرلیا گیا۔ یہاں پر دن بہ دن غیر مجاز افراد غیر قانونی طور پر من مانی کرتے ہوئے اراضی پر قبضہ جمائے رکھتے ہوئے جھونپڑیاں تعمیر کرلئے گئے اور زائرین سے تین تا پانچ سو روپئے ایک دن کا کرایہ حاصل کررہے ہیں اور اس اراضی پر اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ ریاستی وقف بورڈ کو اس کا علم ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ اس طرح سے یہاں پر وقف بورڈ عملہ بھی ان جھونپڑیوں میں ملوث ہے اگر بصورت وقف بورڈ کی جانب سے زائرین کیلئے قیام گاہیں ہوتی تو بہتر ہوتا ۔ بارش اور موسم گرما میں زائرین کوقیام کرنا ہو تو کہاں کریں انہیں کوئی سہولت نہیں ہے۔ وقف بورڈ کی لاپرواہی حکومت کی خاموشی کا نتیجہ ہے کہ بڑا پہاڑ کئی مسائل سے دوچار ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ درگاہ شریف پر مجاوروں کی جانب سے فاتحہ خوانی اور نیاز وغیرہ کیلئے زبردستی مجاور پانچ سو تا ہزار روپئے وصول کررہے ہیں۔مجاوروں کی من مانی عام ہوچکی ہے۔ سابق وزیر پوچارم سرینواس ریڈی کو اس سلسلہ میں شکایت بھی کی گئی تھی اور تمام مسائل سے واقف بھی کروایا گیا تھا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے فوری منتخبہ نمائندوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی یہ بھی ناکام ثابت ہوگئی۔یہاں واقع دفتر میں وقف بورڈ عملہ ہمیشہ غیر حاضر رہتا ہے اور دفتر برائے نام ہے ۔اس طرح بڑا پہاڑ درگاہ ترقیاتی کاموں سے محروم ہوچکی ہے۔