کیا راہول گاندھی نے سومناتھ مندر کے رجسٹرار میں غیرہندو کے طور پر دستخط کی

نئی دہلی۔سوشیل میڈیاپر ایک بڑے تنازع اس وقت شروع ہوگیاجب میڈیا کی رپورٹس میں کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کو گجرات کی سومناتھ مندر کے رجسٹرارڈ میں غیرہندو کے طور پر دستخط کرنے کی بات منظر عام پر ائی۔دراصل یہ نیوز زی گجرات نے شائع کی جس کے بعد اس کے جرنلسٹ تیجس مودی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے شروعات کی ۔مذکورہ ٹوئٹ میں تیجس مودی نے دعوی کیاکہ ’’ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے سومناتھ مندر کا دورہ کیا۔ اور مندر ٹرسٹ کے رجسٹرار میں غیرمسلم کے طور پر دستخط کی۔ احمد پٹیل نے بھی دستخط کی‘‘۔ً

بی جے پی ائی ٹی سل کے سربراہ امیت مالویہ نے اس ٹوئٹ کو اپنے ہینڈل پر لیا جس کے ساتھ ہی کم وقت میں ٹوئٹر کے دیگر ہینڈل پر بھی بی جے پی کے حامیوں نے شامل کیا اوراس کو وائیرل کردیا۔زی ٹی وی کے ساتھ ملکر ٹی وی نیوز چیانل نے ’ راہول کو ہندو ہونے کا فخر نہیں؟ کے عنوان پر پروگرام چلایا جس کاہیش ٹیگ تھاراہول ہندو وواد وہیں پر ریپبلک ٹی وی نے راہول ہندو یا کیتھولک ہیش ٹیگ لگا کر سوال پوچھا کہ ’’ جب تم 27سال کے تھے اس وقت این وائی ٹی کی فہرست میں تم کیتھولک رکھاگیا تھا ۔ کیا تم نے اس کودرست کیا؟یا پھر تم این وائی ٹی کے خلاصہ کے بطور رومن کیتھولک قبول کرتے ہوئے۔ کیاتم اپنے طور سے 2012میں برہمن بن گئے؟‘‘۔ ٹائمز ناؤ نے راگاسومناتھ سیلف گول ہیش ٹیگ کے ساتھ 8تا9بجے رات کو مباحثہ لگاگیا ۔ ٹائمز آف انڈیا نے اس کو اپنی فرنٹ پیچ اسٹوری بنائی۔


ہاتھ سے لکھے ہوئی تحریری۔۔۔۔

یہ ایک آسان راستہ ہے کہ فوری طورپر ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریرکو کسی ایک فرد سے جوڑاجاسکتا ہے مگر ہاتھ سے لکھی تحریری کی شناخت کے ماہرین نہیں بن سکتے۔ یہ ایسے تکنیک ہے جو دنیا بھر میں فارنسک تنظیمیں اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اس بات کواگر قبول کرلیں تو راہول گاندھی مختلف گوشوں میں کانگریس کی نمائندگی کرتے ہیں ‘ گوگل کے ذریعہ ایک آسان سرچ کے ذریعہ ان کی ہاتھ سے لکھی کئی تحریروں کا مشاہدہ کیاجاسکتا ہے۔ وہا ں سے ایک نمونہ لیں او رسومناتھ مندر کے رجسٹرارڈ کی لکھائی کی جانچ کرلیں جو دیکھایاجارہا ہے۔اوپر کی تصویر سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ وہ پبلک ویب سائیڈ پر دستیاب راہول گاندھی کے تحریرکے نمونے سومناتھ مندر کے رجسٹرار میں موجود تحریرکے نہیں ملتی ہیں۔

اس کے علاوہ دو علیحدہ تحریریوں کی لائن جس میں’’راہول گاندھی جی‘‘ اور ’’ احمد پٹیل‘‘ لکھاہوا ہے کا تقابل کیاجائے تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دونوں تحریروں کو لکھنے والا شخص ایک ہی ہے۔اور یہ بھی کہ احمد پٹیل کا نام کے الفاظ میں گڑ بڑ ہے جبکہ راہول گاندھی کے نام کے ساتھ ’’راہول گاندھی جی لکھا ہوا ‘‘ جس کا مطلب ہے کہ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ ’’ راہول گاندھی جی‘‘ خود ہی لکھ لیاہے یہ پھر احمد پٹیل نے اپنے نام کی تحریرمیں خود ہی غلطی کی ہے۔ آسانی کے ساتھ تحریرکے جانکاروں نے اس کو مانا ہے کہ وہ تحریری راہول گاندھی نے خود نہیں لکھا ہے۔ وہیں پر بی جے پی ائی ٹی سل کے سربراہ امیت مالویہ نے سابق میں بھی کئی بار اس طرح کی غلط جانکاری دی کیا مختلف نیوز چیانل اس کا آسان جائزہ نہیں لے سکتے تھے؟


اس پر کانگریس کا موقف یہ ہے کہ ایک پریس کانفرنس کے دوران تیکھا ردعمل پیش کرتے ہوئے کانگریس کے ترجمان نے سومناتھ مندر کے رجسٹرر میں کی گئی دستخط پر مشتمل اصلی دستاویزات پیش کئے۔ ان کا دعوی ہے کہ راہول گاندھی نے خود کو غیر ہند و پیش کرتے ہوئے کہیں پر دستخط ہی نہیں کی ہے۔اس کے متعلق کانگریس پارٹی کے سوشیل میڈیا اور ڈیجیٹل کمیونیکشن انچارج دیویہ سپندانہ نے وضاحت کی ۔ انہوں نے منوج تیاگی کا نام کی تجویز دی جوکہ کانگریس پارٹی کے میڈیا کوارڈینٹر ہیں جنھیں راہول گاندھی کیساتھ آنے والے میڈیا ممبران کے لئے مندر میں رکھے گئے رجسٹرارڈ میں دستخط کرنے کو کہاگیاتھا۔ ان کے مطابق راہول گاندھی اپنے نام کے ساتھ ’جی‘ کس طرح لکھیں گے۔ جب سپندانا نے کہاکہ تیاگی کے مطابق جب انہوں نے دستخط کی تھی اس وقت راہو ل گاندھی جی او راحمد پٹیل ‘‘ وہا ں پر موجود نہیں تھے تو پھر کس طرح یہاں پر ان دونوں کی دستخط ہوئی۔

سومناتھ مندر کے انتظامیہ نے کہاکہ راہول گاندھی نے ویزٹرس بک میں دستخط کی ہے اور پھیلائے جارہے دستخط کا دعوی غلط ہے۔

الیکشن کے دوران اس قسم کے معاملوں کو اجاگر کرنا دراصل حقیقی مسائل سے عوام کو گمراہ کرنا ہے