جمہوری آزادی کو ختم کرنے یونیورسٹی کیمپس میں آر ایس کی ائیڈیالوجی پر عمل

ملک سے غداری کا جھوٹا مقدمہ ‘ حملہ میں بال بال بچنے والے جے این یو لیڈر عمر خالد کا بیان
حیدرآباد ۔ نئی دہلی کے کنسٹیٹیوشن کلب کے باہر13اگست کے روز جان لیوا حملہ میں بال بال بچنے والے جواہرلال نہرو یونیورسٹی لیڈر عمر خالد نے ’’خوف سے آزادی‘‘ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’ مجھ پر جان لیوا حملہ کرنے والوں سے میں قطعی ناراض نہیں ہوں‘ کیونکہ اس حملے میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے ‘ دراصل قصور تو بی جے پی کے ان اسپوکس پرسن کا ہے جو ہر روز ٹیلی ویثرن چیانلوں پر آکر مجھے ملک کے غدار کے طور پر پیش کرتے ہیں‘ قصور ان ٹیلی ویثرن اینکروں کا ہے جنھیں صبح شام مجھے ملک کے غدار کے طور پر پیش کرنے کے لئے مامور کیاگیا ہے‘‘۔
لامکاں میں منعقدہ مذکورہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمر خالد نے کہاکہ فبروری 2016میں جواہرلا ل نہرو یونیورسٹی میں مخالف ملک نعرے لگانے کا مجھ پر اور دیگر لوگوں پر الزام عائد کیاگیا ہے مگر دو سال سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی دہلی پولیس اس کیس میں اب تک چارچ شیٹ داخل کرنے سے قاصر ہے۔
عمر خالد نے کہاکہ اسی طرح جھوٹی پروپگنڈوں کے ذریعہ ڈر او رخوف کا ماحول پیدا کیاجارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ جو کوئی نریندر مودی حکومت اور ہندوتوا طاقتوں کے خلاف بات کرتا ہے اس کو یاتو ماردیاجاتا ہے یا پھر ملک کا غدار قراردیتے ہوئے اس پر (سیڈیشن) کیس چلایاجاتا ہے ‘ حالانکہ پولیس اور تحقیقاتی اداروں کے پاس اس کیس سے متعلق کوئی پختہ ثبوت تک موجود نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہاکہ ہجومی تشدد کے بڑھتے واقعات پر جہاں سیول سوسائٹی اور سکیولر طاقتیں ملک بھر میں احتجاج کررہے تھے وہیں علیم الدین کے قتل کیس میں جن لوگوں کو پہلی مرتبہ سزا سنائی گئی ‘ ان کی ضمانت پر رہائی کے بعد ایک مرکزی وزیر( جیانت سنہا) ان کا استقبال کے لئے پہنچ گئے اور سزا یافتہ مجرموں کو تہنیت پیش کی۔
انہو ں نے کہاکہ اس سے ہجومی تشدد کے خاطیوں کے حوصلہ اور بھی بلند ہوتے ہیں۔عمر خالد نے وزیراعظم نریندر مودی کا تقابل فلم گجنی کے عامر خان سے کرتے ہوئے کہاکہ پچھلے ستر سالوں میں کانگریس حکومت کی ناکامیاں انہیں یاد ہیں‘ ہندوستان کی بارہ سوسالہ دور غلامی جس میں مغل راج سے لے کر انگریزوں کی حکمرانی تک کا دور یاد ہے مگر 2014میں جو وعدہ عوام سے انہوں نے کئے ہیں وہ بھول گئے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ جب ہم ان سے ان وعدوں کے متعلق سوال کرتے ہیں تو سنگھی ہمیں ملک کا غدار قراردینے میں کوئی دیر نہیں کرتے ۔انہو ں نے کہاکہ
اس کا مقصد ہماری آواز کو دبانا ہے۔ جس طرح جواہرلا ل نہرو یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹ کی آواز کودبانے کاکام کیاجارہا ہے۔
انہو ں نے کہاکہ یونیورسٹی میں جہاں 130روپئے فیس لی جاتی ہے اور وہاں پر تعلیم حاصل کرنے والوں کی اکثریت یاتو معاشی طور پر پسماندہ خاندان سے تعلق رکھنے والوں کی ہے یا پھر قبائیلی علاقوں کے طلبہ ہیں مگر ڈسپلن شکنی کے نام پر 60طلبہ سے چار لاکھ روپئے سے زائد جرمانے کے طور پر وصولے گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ جرمانے کی وجوہات جاننے پر آپ چونک جائیں گے۔
عمر خالد نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ کسی بچے کو کیمپس کے کسی کونے میں کھڑے ہوکر بریانی کھانے پر جرمانہ عائد کیاگیا ہے۔ یا پھر کسی اسٹوڈنٹ کو رات دیر گئے کیمپس میں چہل قدمی کرنے پر جرمانہ عائد کیاگیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ کسی بھی طرح یونیورسٹی کیمپس کی جمہوری آزاد ی کو ختم کرتے ہوئے وہاں پر آر ایس ایس کی ائیڈیالوجی کو نافذ کرنے کاکام کیاجارہا ہے۔
عمر خالد نے ’’ اربن نکسل‘‘ کے نام پر سماجی جہدکاروں کی گرفتاری کو بھیما کورے گاؤں تشدد کے اصل خاطیوں کو بچانے کی سازش کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھیماکورے گاؤں میں یکم جنوری کے روز پیش ائے تشدد میں سمبھا جی بھیڈے او رملند اکبوڈے کے رول کی وضاحت کے باوجود پولیس انہیں گرفتار کرنے سے قاصر ہے۔
عمر خالد نے کہاکہ اس کی وجہہ یہ ہے کہ بھیڈے کا تعلق سناتھن سنستھا سے ہے اور انہیں وزیراعظم نریندر مودی گروجی کہتے ہیں۔ عمر خالد نے مہارشٹرا پولیس پر الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ مذکورہ دولوگوں کو گرفتار کرنے کے بجائے پولیس نے یکم جنوری کے بھیما کورے گاؤں تشدد میں مارکھانے والے بھی دلت اور گرفتار ہونے والے بھی دلت ہی ہیں۔انہوں نے کہاکہ یو اے پی اے قانون کا غلط استعمال کیاجاتارہا ہے اور یہ حکومت بھی وہی کام کررہی ہے۔

انہو ں نے کہاکہ یواے پی اے کے تحت گرفتارہونے والے 99فیصد ملزمین باعزت بری ہوتے ہیں مگر اس قانون کے سہارے حکومت سکیولر آواز کو دبانے کاکام کرتی ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ پولیس اب تک وزیراعظم کی قتل کی مبینہ سازش کے ضمن میں ضبط مکتوب عدالت میں پیش نہیں کیاہے۔

انہوں نے کہاکہ یہ مکتوب میڈیا ہاوز کے پاس پہنچ گیا ہے مگر عدالت میں نہیں پہنچا۔ انہوں نے کہاکہ پولیس اور حکومت کے رویہ سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اب ان کے لئے ٹیلی چیانل کے دفتر ہی عدالت میں تبدیل ہوگئے ہیں۔

عمر خالد نے خالد نے کہاکہ آنے والے دنوں میں وزیراعظم پھر ایک مرتبہ ٹیلی ویثرن پر نمودار ہوکر اس بات کا اعلان کرسکتے ہیں کہ آج کے بعد سے ٹیلی وی چیانلوں کے دفاتر ہی ہماری عدالتیں ہیں۔
عمر خالد نے کہاکہ 2019میں شکست کا خوف بی جے پی والوں کو اصل مدعوں سے لوگوں کا ذہن ہٹاکر فرقہ پرستی کی طرف لے جانے پر مجبور کردیا ہے ۔
انہو ں نے کہاکہ مہارشٹرا میں زراعی بحران کا شکار دلت اور مراٹھا سماج کے لوگ نہ صرف مہارشٹرا بلکہ مرکزی حکومت سے بھی سخت نالاں ہیں اسی وجہہ سے مہارشٹرا پولیس کے سہارے ریاستی حکومت عوام کی توجہہ کو ہٹانے کے لئے اربن نکسل کے لفظ کا استعمال کررہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ڈر او رخوف سے ہمیں آزاد ہونا ہے اور اس کے لئے مجوزہ2019کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی شکست ضروری ہے۔

نوٹ ۔جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد سے خصوصی بات چیت پر مشتمل انٹرویو 8ستمبر کے روز سیاست ٹی وی پر رات9:30بجے نشر کیاجائے گا۔