ایک طالب علم کی موت او رایک طالب علم لاپتہ ہونے کے بعدجے این یو پھر ایک مرتبہ سرخیوں میں

پچھلے دوہفتوں سے جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے لاپتہ پی ایچ ڈی طالب علم کی تلاش میں پریشان حال یونیورسٹی انتظامیہ کے لئے25اکٹوبر کو یونیورسٹی کے ہاسٹل کیمپس روم سے جے پی راجہ پی ایچ ڈی طالب علم کی نعش دستیاب ہونا ایک نیادرد سر بناہو ا ہے۔
جے پی راجہ کے دوستوں کے مطابق وہ جگر کے امراض میں مبتلاء تھا اور و ہ مسلسل ڈاکٹر کے پاس بھی جایا کرتا تھا۔تین دنوں سے لاپتہ رہنے کے بعد اس کی نعش ہاسٹل روم سے دستیا ب ہوئی ۔

جے پی راجہ منی پور کے سینا پتی ضلع کا رہنا والا تھا اور یونیورسٹی کے برہماپترا ہاسٹل روم نمبر171میں رہائش پذیر تھا۔ تحقیقات کاسلسلہ جاری ہے اور پولیس کو پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے۔یونیورسٹی کیمپس میں موت کا یہ واقعہ نجیب کے یونیورسٹی کیمپس سے دولاپتہ ہوئے دوہفتوں کے بعد سامنے آیاجس کے متعلق قیاس لگایا جارہا ہے کہ نجیب کو دائیں بازو گروپس کے طلبہ کے ساتھ مدبھیڑ کے بعد اغوا کرلیاہوگا۔

نجیب احمد ایم ایس سی بائیوٹیک کا طالب علم جس نے اسی سال جون میںیونیورسٹی میں داخل لیاتھا۔نجیب کے ایک قریبی دوست کے مطابق لاپتہ ہونے سے ایک دن قبل ہی اس کو ہاسٹل کے اندر اے بی وی پی کارکنوں نے زدکو ب کیاتھا ۔پولیس اس کیس کی تحقیقات کررہی ہے مگر فبروری کے سیڈیشن کیس کی طرح سنجیدگی کے ساتھ نہیں۔

یونیورسٹی میں پچھلے ساک بھی اس طرح کاماحول تھا جہاں پر طلبہ تنظیمو ں کی جانب سے کلچرل پروگراموں کے انعقاد کے فیصلے کے بعد ایک بڑا تنازع سامنے آیا۔جی این یو اسٹوڈنٹ یونین کی تنظیمیں ڈیموکرٹیک اسٹونٹ یونین نے عدالتی تحویل میں افضل گرو کا قتال اور کشمیری مہاجرین کی حمایت کے عنوان پر پلے کارڈس کے ساتھ احتجاج منظم کیاتھا۔

پروگرام کے بعد رکن پارلیمنٹ بی جے پی مہیش گری نے ایک ایف آئی آر درج کرواتے ہوئے جے این یو طلبہ پر مخالف ملک سرگرمیوں انجام دینے کا الزام لگایا۔جس کے فوری بعد وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ سخت انتباہ دیتے ہوئے کہاکہ اس قسم کی سرگرمیوں اور مخالف ملک نعرے بازی کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیاجائے گا۔

ایک انٹرویو میں انہو ں نے یہ بھی کہاکہ اس قسم کی سرگرمیوں ہم برداشت نہیں کرسکتے۔بالآخر دہلی پولیس نے جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے صدر کنہیاکمار اور دیگر چار کوسیڈیشن و مجرمانہ سازش کے تحت گرفتاری عمل میں لائی۔مذکورہ واقعہ کی وجہہ سے ڈسپلنری تحقیقات کے مطابق اٹھ طلبہ کو یونیورسٹی سے معطل کردیاگیا۔

مسلسل احتجاج اور دھرنوں کے بعد سیاسی جماعتیں بی جے پی ‘ عاپ ‘ کانگریس اور بائیں بازو جماعتوں کی سیاسی دنگل بازی کے بعد اگست میں کنہیار کمار اور دو کی ضمانت منظور کرتے ہوئے چند شرائط کے ساتھ کنہیا کی رہائی عمل میں لائی گئی۔تب سے لیکر آج تک یونیورسٹی کاماحول گرما یہ ہوا ہے۔
لاپتہ طالب علم
نجیب کا واقعہ کئی کہانیاں بیان کرتا ہے۔عینی شاہد چند طلبہ کے مطابق14نومبر کی رات کو بیس سے تیس طلبہ نے نجیب کے ساتھ مار پیٹ کی۔ہاسٹل ورڈن کے مطابق نجیب نے جھگڑا شروع کیا جس کے بعد پندرہ لوگوں نے نجیب کے ساتھ ماپیٹ کی۔نجیب 15اکٹوبر سے لاپتہ ہے جس کا اب تک کوئی سراغ نہیں ملا۔اسٹوڈنٹ یونینوں کی اس معاملے میں رائے مختلف ہے ۔

اے ائی ایس ایف کویقین ہے کہ نجیب کو اغوا ء کرلیاگیا ہے جبکہ دیگر بائیں بازو تنظیموں کااحساس ہے کہ اے بی وی پی کے دھمکیوں کے بعد نجیب یونیورسٹی کیمپس چھوڑ کر فرار ہوگیاہے۔ دوسری جانب اے بی وی پی اس بات کو ماننے سے انکار کررہی ہے نجیب کے ساتھ ان کا کوئی جھگڑا ہوا ہے ۔

اے بی وی پی نے یہاں تک کہددیا کہ نجیب کے لاپتہ ہونے کی ذمہ داری اس پر تھوپ کر کیمپس میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔جے این ایس یو اسٹوڈنٹ کے ساتھ جے این یو ٹیچرس اسوسیشن جے این یو ٹی اے نے بھی احتجاج میں شامل ہوتے ہوئے نجیب کے ساتھ مارپیٹ کرنے اور اسکو دھمکانے والوں کے خلاف سخت ایکشن کا مطالبہ کررہے ہیں۔

برسا امبیڈکر پھولے اسٹوڈنٹس اسوسیشن و بی اے پی ایس اے دوسری جانب پوسٹرز لگانے بھی شروع کردئے جس پر لکھا ہے نجیب جبری ہندوتوا کا شکار ہے اس کو اے بی وی پی ‘ بی جے پی اور آرایس ایس کی جانب سے نشانہ بنایاگیاہے اورپوسٹر س میں اونہ واقعہ کابھی حوالہ دیا گیا او راسکو نجیب سے جوڑنے کاکام کیاگیا۔امید ہے کہ نجیب کا لاپتہ ہونے کے واقعہ سے دہلی کے ایل جے او رصدر جمہوریہ ہند وقف ہونگے ‘ نجیب کے متعلق کسی بھی قسم کے معلومات پولیس پاس نہیں ہیں۔

پولیس جہاں پر نجیب کا پتہ لگانے سے قاصر ہے وہیں پر جے پی راجو کی موت بھی اس کے لئے ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ جی این یو میں درپیش مسائل حل ہوتے نہیں دیکھائی دے رہے ہیں۔

بشکریہ کیچ نیوز