امریکہ میںیہودیوں اور عیسائیوں میں کشیدگی ۔ بقلم شکیل شمسی

امریکہ کے شہر پٹسبرگ کے ایک یہودی معبد سنے گاگ( جس کو عربی میں کنیس او رفارسی میں کنسیہ کہتے ہیں)میں گھس کر ایک بندوق بردار عیسائی نے پہلے وہاں عبادت میں مصروف 11یہودیوں کو قتل کیابعد میں چار پولیس والوں کو گولی ماردی۔ رابرٹ ہاوز نام کے ایک 42سالہ شخص نے فائرنگ کرنے سے پہلے چیخ چیخ کر کہاکہ یہودیوں کو زندہ رہنے کاکوئی حق نہیں ان سب کو مرجانا چاہئے۔

اس کے بعد اس نے اندھا دھندفائرنگ کردی ۔ ایک درجن سے زیادہ لوگ زخمی ہوگئے ۔اس نے جرم کا ارتکاب کرنے سے قبل اپنے فیس بک اکاونٹ پر یہودیوں کے خلاف کافی نفرت آمیز جملے لکھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کو مارنے والا شخص یہودیوں سے کتنا پریشان تھا۔

اصل میںیہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان دو ہزار سال تک نفرتوں کا سیلاب موجزن رہا ہے۔ یہ نفرتیں اس وقت شروع ہوئی تھیں جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کو فلسطین کی سرزمین پر طرح طرح سے پریشان کرنا شروع کیااور ( اپنی دانست میں) ان کو مصلوب کردیا۔

حضرت عیسیٰ او را ن کے ساتھیوں پر ہونے والے مظالم کا بدلہ عیسائیوں نے اسوقت لینا کا فیصلہ کیاجب روم پر ان کو غلبہ حاصل ہوا تو شہنشاہ ویسپا سین نے اپنے بیٹے ٹائٹس کی قیادت میں فلسطین پر حملہ کرنے کے لئے ایک بڑی فوج بھیجی جس نے 70یہودی مملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی او ریہودیوں کو یروشلم میں داخلے پر بھی پابندی عائد کردی گئی

۔یہودیوں کو دوبارہ یروشلم میں داخلہ اس وقت نصیب ہوا جب 37عیسوی رومن فوجو ں کو شکست دے کر مسلمانوں نے اپناپرچم بیت المقدس پر لہرادیا۔ اسکے بعد بھی عیسائیوں کی طرف سے یہودیوں پر حملے ہوتے رہے ان کی نسل کشی کا سب سے بڑا کام ہٹلر نے انجام دیاجو عقیدے کے حساب سے ایک کیتھولک عیسائی تھا۔

روس او ریورپ کے کئی ممالک میں عیسائیوں نے یہودیوں کو موقع بہ موقع ظلم وستم اورتشدد کانشانہ بنایا‘ لیکن یہودیوں نے برطانیہ ‘ امریکہ ان کے اتحادیوں کی طرح سے مدد کی اور ا کی نسل کشی کو روکالیکن تب تک یہودیت محدود ہوچکی تھی او رصیہونیت نام کانیاعفریب یہودیوں کے درمیان پیدا ہوچکا تھا جومسلمانو ں کا جانی دشمن تھا۔

اسی گروہ نے عیسائیوں کے تعاون سے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کرکے یہودیوں کے لئے ایک الگ ملک بنانے میں کامیابی حاصل کی ۔مشرقی وسطی کی اسرائیل کے نام کاناسور ڈال کربرطانیہ اور امریکہ نے یہودیوں او رعیسائیوں کی دوہزار سال پرانی دشمنی کو ختم کرنے کی شروعات کی اور جیسے جیسے مسلمانوں او ر صیہونیوں میں ٹکراؤ بڑھا عیسائی او ریہودی قریب آتے گئے ۔

یہا ں تک کہ سنہ 2000میں باقاعدہ طور پر پاپائے روم نے اپنی پوری ملت کی طرف سے یہودیوں سے ان مظالم کے لئے معافی مانگی جن کا نشانہ ان کوبنایاگیاجس کے بعد یہودی فرقے کے سب سے بڑے ریبائی نے دونوں فرقوں کے درمیان چلی آرہی قدیم دشمن کے خاتمے کا اعلان کیا۔

لیکن دونوں کے درمیان مخاصمت پوری طرح ختم ہوگئی ہو ایسا بھی نہیں۔ امریکہ میںیہودیوں کی زیادتیوں سے لوگ بہت پریشان ہیں ۔ ان کے سیاسی اثرات ان کی رسائی او ران کی دولت وثروت کی وجہہ سے ان کی زبردست لابنگ عام امریکی کے لئے ناانصافیو ں کا ایک پہاڑ بن کر ان کے سامنے ہے۔

یہودیوں کے خلاف امریکیوں کے دلوں میں روز بہ روز نفرت بڑھ رہی ہے اور اسی کا ایک نمونہ پٹسبرگ میں دیکھنے کو ملا۔دنیاکی حقیقت تو یہی ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ دشمن کے خلاف ایک ہوجانے کی وجہہ سے دل بھی صاف ہوجائیں ایسا نہیں ہوتا۔

دوہزار سال کی خونیں تاریخ چھپانے کے لئے مسلمانو ں کو یہودیوں سے لڑایاتو جاسکتا ہے لیکن اس سے دو فرقوں میں حقیقی اتحاد پیدا ہوجائے گا بالکل ناممکن ہے۔ بہر کیف ہم اس قتل عام کی مذمت کرتے ہیں۔

لیکن میں اتنا ضرور کہناچاہیں گے ک اس واقعہ کی ہماری میڈیا میں جس محدود پیمانے پر رپورٹنگ ہوئی وہ بہت ہی قابل تشویش ہے ۔ ذراسوچئے کہ اگر یہی جرم خدانخواستہ کسی مسلمان نے انجام دیا تو تو میڈیانے کیاقیامت سر پر اٹھائی ہوتی اوراب تک یہودیوں کو دنیاکی سب سے مظلوم قومی ثابت بھی کردیاہوتا۔

مگر اس معاملے میں ان کو سانپ سونگھ گیا۔ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کسے ظالم کہیں اورکس کو مظلوم‘ جبکہ یہ حملہ پوری طرح سے فرقہ وارانہ منافرت کی بنیاد وں پر انجام دیاگیاہے