سماجی کارکن مولانا حنیف منانے کہا‘ اس طرح واقعات میں اکثر یہ پولیس معاملہ کو کچھ الگ ہی رنگ دے دیتی ہے اور پھر جب وہ معاملہ عدالت میں جاتا ہے تو وہا ں پر بھی متاثرین کو انصاف نہیں مل سکتا
میوات۔ گاؤ رکھشا کے نام پر تشش کاشکار بننے والے عمرخان کے قتل کے معاملے میں پولیس کا رویہ مسلسل لاپرواہ ومشکوک بنان ہوا ہے۔ اس سلسلے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس متاثرین اور ان کے قریبی لوگوں کو ہی گرفتار کیا ہے دونوں کو گاؤ رکھشک دل سے وابستہ بتایاجارہا ہے جب متعدد ذرائع سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ پولیس نے ایک اور شخص کی گرفتاری کا انکشاف نہ کئے جانے کے حوالے س عمر خان کے آبائی گاؤ ں گھاٹ میکا اور الور کے سماجی افراد او رباشندوگان میں سخت برہمی وغم وغصہ پایاجارہا ہے
۔سماجی کارکن مولانا حنیف منا اس معاملے پر کہتے ہیں کہ ’کسی بھی ملک کی پولیس ہوتی تو محافظ ہے ‘لیکن اگر محافظ ہی قاتل بن جائے یا پھر قاتلوں کی مدد گار بن جائے‘ تو انصاف کس سے مانگا جائے؟ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں اکثر یہ دیکھا گیاہ کہ پولیس معاملہ کو کچھ الگ ہی رنگ دے دیتی ہے او رپھرجب معاملہ عدالت میں جاتا ہے تووہاں پر بھی متاثرین کو انصاف مل پاتا۔ گاؤ رکشہ کے نام پر قتل کے واقعہ اترپردیش کے دادری کے محمد اخلاق سے شروع ہوکر نوح کے پہیلو خان ‘ بلب گڑ کے محمد جنید اور اب الور کے عمر تک آپہنچی ہے‘ لیکن نہ تو حکومت کے کان پر جوں رینگ رہی ہے اور نہ ہی پولیس کا رویہ تبدیل ہورہا ہے ۔
ہر بار پولیس نے متاثرین اور اسکے لواحقین یا ساتھیوں پر ی کیس درج کیا او ر معاملہ میں جلد دھر پکڑ نہ کے گائے کے نام پر قتل کرنے والوں کو بلواسطہ طور پر مدد ہی دی۔ اتنا ہی نہیں پولیس کسی صورت میں اس معاملہ کو گائے کے نام پر قتل کامعاملہ ماننے کو تیار نہیں ہے۔ نمائندہ انقلاب نے جب الور کے ایس پی انل بینی وال سے بات کی تو انہوں نے کہاکہ ’معاملہ گائے کے نام پر قتل کا نہیں ہے بلکہ ایک گائے اسمگلر کے مارے جانے کا ہے۔ مقتول عمر خان اور اس کے دوساتھی طاہر اور جنید تینوں کئی معاملات میں جیل جاچکتے ہیں ۔
ابھی تک دوگرفتاریاں ہوچکی ہیں۔پولیس پوری کوشش کررہی ہے اور مزید ملزمین کو جلد ہی گرفتار کرلیا جائے گا۔ مولاناحنیف منا نے بتایا کہ آج ضلع ہیڈکوارٹر الور میں دہلی سے بردارن وطن پر مشتمل ایک وفد یہاں پہنچا۔ انہوں نے گائے کے نام پر ہورہے ملک میں تشدد کے واقعات کی اچھے انداز میں اس برے عمل کی قباحت بیان کی جبکہ متعدد ذرائع سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ آج دہلی پریس کلب آف انڈیامیں ملک کے وکلا اور جج قومی میڈیا میں اس پورے معاملے اور حافظ جنید کے معاملات کو لیکر پریس کانفرنس سے خطاب کرنے جارہے ہیں۔
میوات میں جانے کتنے غریب سیدھے سادھے لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور گائیوں کو پالتے ہیں‘ لیکن گائے کے نام پر ہورہے تشدد سے میوات کے باشندگان اتنے پریشان ہوچکہ ہیں کہ خطہ میوات میں اقلیتوں سے یہ اپیل کی جانے لگی ہے کہ وہ اب گائے کو نہ پالیں اور جو گائے ان کے پاس ہیں انہیں بھی کھونٹے سے کھول کر حکومت یا انتظامیہ کے پاس پہنچادیں ‘ تاکہ ان کی جان بچ سکے۔ ہرکھونٹے سے کھولو‘ گائے کے نام سے تحریک چلانے والے محمد قاسم میواتی کا کہنا ہے کہ انسانی زندگی سب سے قیمتی ہوتی ہے ‘ لیکن آج کے دور میں کچھ لوگوں نے جانوروں کو انسانوں پر ترجیح دینا شروع کردیاہے۔
موصوف نے کہاکہ ایسے حالات میں میوات کے ہرگائے پانے والے سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے کھونٹے سے گائے کھول دیں‘ اسے کہیں بھی پہنچادیں لیکن اپنی جان بچالیں۔ حالانکہ متعدد لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ جب لوگوں کی گذر بسر گائے پال ہوکر ہوتی ہے اور جن کے پاس مویشیوں کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں ہے اگر وہ گائے کھول دیں گے تو اپنے خاندان کا پیٹ کس طرح پالیں گے؟