اسلا مفوبیا میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ساری دنیامیں بے قصور مسلمانوں کے ساتھ صرف بدسلوکی نہیں کی جارہی ہے بلکہ نفرت پر مبنی جرائم صرف ان کے قدم وخال کی وجہہ سے پیش آرہے ہیں‘ ہوسکتا ہے اس میں داڑھی رکھنے والے بھی شامل ہوں‘ ٹوپی پہننے والے بھی ہوں اور اب ایک زائد کپڑے پہننے پر بھی مسلمانوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے ۔حالیہ دنوں میں ایک مسلمانوں کو ہتھکڑیاں لگاکر اس کی تلاشی لی گئی کیونکہ اس نے ایک سے زائد کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھے۔وہ شخص جمعہ کی نماز کے لئے مسجد کی طرف جارہا تھا تبھی اس پر ایک عورت کی نظر پڑی اور اس نے توجہہ دی کہ اس گرمی کے موسم میں تین پرت کپڑے اس نوجوان نے کیوں پہنے ہیں۔شبہ کی بنیاد پر اس نے پولیس کو اطلاع دی۔
پولیس کی آمد کے ساتھ ہی اس کو ہتھکڑیاں لگائی دی گئی اور تلاشی شروع کے دوران تمام سوالات بھی پوچھ لئے‘ یہ بات قابل یقین ہے کہ مذکورہ عورت سادہ لباس میں انڈرکور پولیس تھی۔مختلف لوگوں نے اس ویڈیو کو ان لائن پوسٹ کیا‘ جس میں ڈی او اے ایم بھی شامل ہے جس نے اپنے فیس بک پر اس ویڈیو کو پوسٹ کیا جس کو کافی مقبولیت بھی مل رہی ہے۔تفتیش او رجانچ کے بعد پولیس کو اس شخص کے کپڑوں میں کچھ بھی نقصاندہ چیز نہیں ملی۔تمام واقعہ کی راستے سے گذر نے والوں نے فلمبندی کی او رپولیس نے وضاحت کی ہے اس نے کیو ں تلاشی لی ہے۔بعدازاں نامعلوم شخص نے ڈی او اے ایم کو اپنا بیان دیا جس میں اس نے کہاکہ ’’میں جمعہ کی نماز کے لئے جلدی میں تھا‘ اور جب میں مسجد کے قریب تھا اچانک اس وقت تمام پولیس والے ائے او رمجھے ہتھکڑی لگادی‘‘۔
وہ عورت( جس نے مجھے روکا)مذکورہ انڈرکور پولیس عہدیدار نے مجھ سے کہاکہ میں بہت زیادہ کپڑے زیب تن کئے ہوئے ہوں۔ مگر میں نے صرف دوپرتی کپڑے ہی پہنے تھے‘‘۔بیان میں مزیدکہاگیا کہ’’ پولیس نے مجھ پر ہتھیار رکھنے کے جھوٹے الزامات لگائے اور اس کے بعد میری تلاشی اور حسب روایت میرے پاس سے کچھ نہیں نکلا‘ جس کے بعد انہوں نے میری تاریخ پیدائش‘ نام معلوم کرنے کے بعد مجھے چھوڑ دیا‘‘۔فیس بک پر ویڈیو وائیرل ہوا اور واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے وقت 7ملین لوگو ں نے ویڈیو کا مشاہدہ کرلیاتھا اور انٹرنٹ صارفین نے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کو حقوق کی خلاف ورزی قراردیااور کہاکہ مذہبی شناخت پر اس شخص کو نشانہ بنانے کا دعوی بھی کیا۔حالیہ دنوں میں ایک مسلم ماڈل اور اس کے بھائی پرلندن میں تیزاب سے حملہ کیاگیا۔ لندن دہشت گرد حملے کے بعد یوکی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔