راہول گاندھی ہماری زندگی میں ایک فرشتہ کی طرح ائے‘ مگر ہم سے اس بات کو راز میں رکھنے کے لئے کہا۔ نربھیاکے والد

نئی دہلی۔ایک دن قبل ہی نربھیاکی ماں نے اس بات کا انکشاف کیاتھا کہ راہول گاندھی نے نربھیا کے بھائی کو پائلٹ بننے میں مدد کی تھی ‘اور اب دہلی اجتماعی عصمت ریزی واقعہ کے متاثرہ کے والد نے بھی اس معاملے میں بات کی ہے۔نوالد نے ائی اے این ایس کو بتایا کہ’’ وہ راہول گاندھی ہی تھے جو ہمارے ساتھ کھڑے تھے اور اس بات کو سختی کیساتھ راز میں رکھنے کی بھی ہمیں ہدایت دی‘‘۔

نربھیا کا بھائی ‘ والدین کے ساتھ اس حادثے کے بعد سکتہ میں تھے۔ وہ اس وقت 12سال کا تھا جب اس کی بہن کو ماردیاگیا۔والدہ نے میل ٹوڈے سے کہاتھا کہ راہول گاندھی کی مدد اور ہمت سے ہی میرا بیٹا پائلٹ بنا ہے۔راہول گاندھی نے نہ صرف اس کی پڑھائی اور ٹریننگ میں ہماری معاشی مدد کی بلکہ وہ ضرورت کے مطابق ہمارے بیٹے کو فون کرتے اوراس کی کونسلنگ کیاکرتے تھے۔

آشا دیو ی نے کہاتھا کہ ’’ راہول گاندھی تھے جنھوں نے میرے بیٹے کی کونسلنگ کی اور اس کو زندگی میں کچھ بہتر حاصل کرنے کا حوصلہ دلایا۔کچھ سیکھنے کے بعد وہ چاہتا تھا کہ ڈیفنس فورس میں شامل ہوجائے ‘ راہول گاندھی نے اس سے کہاکہ وہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پائلٹ کی تربیت بھی لے‘‘۔ڈسمبر 16کی رات جب ان کی بیٹی کا بے رحمی کے ساتھ اجتماعی عصمت ریزی کے بعدقتل کردیا تھا کا حوالہ دیتے ہوئے والد نے ائی اے این ایس سے کہاکہ ’’ راہول گاندھی نے اسکویقینی بنایا ۔ انہوں نے اس حادثے کے بعد ہمارا خیال رکھا‘‘۔

انہو ں نے مزیدکہاکہ ’’ وہ ( گاندھی) نے جذباتی انداز میں ہماری مدد کی۔ انہوں نے کئی زایوں سے ہماری مدد کی‘ انہوں نے ہماری منفی انداز میں مدد کی ۔ بصورت دیگر آپ کو تو معلوم ہی ہے بیٹے کو پائلٹ بنانا ہمارے لئے ممکن نہیں تھا‘‘۔سال2012ڈسمبر 16کی رات کودہلی میں پیش آئے نربھیاواقعہ نے سارے ملک کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ اس رات نربھیااپنے دوست کے ساتھ رات دیر گئے فلم ’لائف آف پئی ‘ دیکھنے کے بعد بس اسٹاپ پر انتظا ر کرتے ہوئے کھڑے تھے۔انہوں نے ایک مقامی بس پکڑے اس وقت دونوں کو اس بات کا ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ رات دونوں کے لئے اس قدر خوفنا ک ہوجائے گی۔

چلتے بس کے اندر پانچ لوگ جس میں ایک نابالغ بھی شامل تھے جہاں پر نربھیاکے ساتھ بدسلوکی اور اس کی اجتماعی عصمت ریزی کا گھناؤ نہ جرم انجام دیا وہیں پر نربھیاکے دوست کے سر پر راٹھ سے وار بھی کیاتھا۔ اتنا پر ہی بات ختم نہیں ہوئی ‘ جنسی استحصال ‘ اجتماعی عصمت ریزی کے بعد نربھیا کے گنہگاروں نے بے بس ‘ مجبور ‘ لاچار نربھیاکی شرم گاہ میں راڈ گھسانے تک سے گریز نہیں کیا۔ بعدازاں خون میں لت پت حالت میں اس کو بیچ سڑک پر پھینک کر وہ راہ فرار اختیار کرلی۔

نربھیاکی موت سنگا پور کے ایک اسپتال میں علاج کے دوران ہوئی جس حکومت کے خرچ پر کیاجارہاتھا۔ اس جرم کے بعد بے شمار احتجاج ہوئی جس کو میڈیا کی توجہہ بھی حاصل رہی‘ حکومتنے اس قسم کے جرائم پر لگام کسنے کے لئے فاسٹ ٹریک کورٹ کا قیام عمل میں لایا۔

اب پانچ سال کے بعد نربھیاکے والد نے ائی اے این ایس کو بتایا کہ ’’ اس واقعہ نے ہمارے دل پر کبھی نہ مٹنے والے زخم چھوڑ ہیں مگر گاندھی ہماری زندگی میں ایک فرشتہ کی طرح ائے۔ سیاست جو بھی ہو وہ ہمارے لئے کسی فرشتے سے کم نہیں ہیں‘‘۔

اب پانچ سال بعد اس ہوائی جہاز کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کا خواب دیکھ رہے ہیں جس کو ان کا بیٹا اڑائے گا۔