’’ چھوڑ ہی دونگا ‘‘

حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین ، صدر مفتی جامعہ نظامیہ

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید بیرون ملک مقیم ہے، فون پر ایک مرتبہ وہ اپنی بیوی ہندہ سے دوران گفتگو اس کی بات نہ ماننے پر یہ کہا کہ میں ’’چھوڑ ہی دونگا‘‘ اس پر بیوی ہندہ نے دریافت کیا؟ کیا چھوڑ دیتے تو جواب میں شوہر زید نے ’’ طلاق دیدے توں‘‘ کہا۔ یہ واقعہ کچھ عرصہ قبل کا ہے اس کے بعد بھی بیوی کی اپنے شوہر زید سے فون پر متفرق اوقات میں گفتگو ہوتی رہی اور وہ اپنے شوہر کے گھر برابر اس کے والدین کے پاس آتی جاتی رہی، لیکن اب دو سال بعد جب زید واپس آیا تو اچانک اب بیوی یہ کہہ رہی ہے کہ شوہر زید نے فون پر تین مرتبہ طلاق دیدی ہے اس لئے یہ رشتہ اب باقی نہیں رہا۔ اس بارے میں شرعاً کیا حکم ہے ؟ بینواتؤجروا
جواب: بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں اب مذکورہ بالا زید کی صراحت سے اس کی بیوی کو اتفاق ہے یعنی شوہر نے ’’چھوڑ ہی دونگا‘‘ اور ’’طلاق دیدے توں‘‘ کہا تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگر اس کی بیوی ہندہ اپنے بیان (یعنی فون پر تین مرتبہ طلاق دینے کی بات) پر قائم ہے اور زید کو اس کا انکار ہے تو شرعی حکم کے مطابق بیوی پر گواہ یعنی بینئہ شرعیہ دو مرد یا ایک مرد ، دو عورتوں کی شہادت پیش کرنا لازم ہے ۔ جب اس کے بیان پر کوئی گواہ نہ ہوں اور حقیقۃً گواہ یعنی بینۂ شرعیہ کا ثبوت ممکن بھی نہیں۔ اس لئے اگر شوہر حلف اٹھالے یعنی تین مرتبہ طلاق نہ دینے کی قسم کھالے تو ایسی حالت میں شوہر کے قول کا شرعاً اعتبار ہے۔ فتاوی مہدیہ مصری جلد اول کتاب الطلاق ص ۱۷۴ میں ہے: (سئل) فی رجل حصل بینہ و بین صھرہ مشاجرۃ و منافسۃ فادعت زوجتہ بانہ طلقھا عنادا مع زوجھا فأنکردعواھا فھل اذا لم تقم علیہ بینۃ بالطلاق یکون القول قولہ بیمینہ فی عدم الطلاق المدعی بہ و علیھا طاعتہ ؟ (اجاب) القول للزوج بیمینہ حیث لا بینۃ للزوجۃ علی دعواھا الطلاق۔

مسجد میں کھڑکیاں نصب کرنا
سوال : مسجد میں روشنی و ہوا کیلئے کھڑکیاں نصب کی جائیں تو شرعاً کیا حکم ہے ؟ بینواتؤجروا
جواب : فقہاء کرام نے شغل صلاۃ و مخل خشوع و خضوع امور (جیسے طعام کی موجودگی میں جس کی طرف میلان ہو حوائج ضروریہ و خروج ریح ، فراغت کی شدید ضرورت کے باوجود نماز کی ادائیگی) کو مکروہ قرار دیا ہے جیسا کہ نورالایضاح ص ۸۸ میں ہے : ویکرہ للمصلی … و مدافعالاحد الاخبثین اوالریح … و بحضرۃ طعام یمیل الیہ وما یشغل البال و یخل بالخشوع ۔ مساجد کی تزئین اور اس میں روشندان کی تنصیب کو بوقت نماز اشتغال قلب کی علت کے سبب فقہا کرام نے مکروہ قرار دیا تھا ۔ بعد ازاں مکانات کی تزئین اور اس میں روشندانوں کی تنصیب کی جانے لگی اور مساجد غیر مزین رکھے جانے لگے تو علماء نے شعائر اللہ کی تعظیم و حرمت کے سبب مساجد کی تزئین کو مستحسن و مباح خیال کیا ہے ۔ موجودہ طرز تعمیر میں چونکہ ہوا و ر روشنی کو اہمیت دی جانے لگی اور لوگ چونکہ اس کے عادی ہوچکے ہیں مصلیوں کے اندر خشوع و خضوع ادائی صلاۃ کے جذبہ کے ساتھ روشندان و کھڑکیاں نصب کی جائیں تو اب یہ عادۃ خشوع و خضوع میں مخل نہیں رہے۔ بریں بناء روشنی و ہوا کے لئے مساجد میں کھڑکیوں کی تنصیب چاہے وہ کسی سمت ہوں منع نہیں بشرطیکہ متصل غیر کی ملک نہ ہو یا مسجد کی ملک میں کھڑکی کھل رہی ہو جیسے مسجد کی تعمیر اطراف سے زمین چھوڑ کر مسجد کی ملک میں کھڑکیاں رکھی جائیں تو کوئی حرج نہیں۔