’ایمان‘ سب سے بڑی دولت

دستگیر نواز
حق تعالیٰ جل شانہ نے ہمیں جن انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازا ہے، ہماری حقیر عقل مکمل طورپر ان کے شمار سے قاصر ہے۔ کھانے پینے کی چیزیں نعمت تو ہیں ہی، لیکن کیا ہم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ بھوک اور پیاس بھی نعمتِ خداوندی ہیں۔ اگر بھوک اور پیاس نہ ہو تو دنیا کی بہترین سے بہترین کھانے پینے کی چیزیں اپنی اہمیت کھو بیٹھیں اور اعلیٰ سے اعلیٰ انواع و اقسام کی چیزیں مٹی معلوم ہوں۔ اس بات کا اندازہ ہم کو دورانِ روزہ بخوبی ہوتا ہے کہ تمام دن بھوک اور پیاس کی شدت برداشت کرنے کے بعد جب ہم روزہ کھولنے کے لئے بیٹھتے ہیں تو ایک کھجور اور ایک گھونٹ پانی نوش کرتے ہی خدائے تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہیں، جب کہ عام دنوں میں ہم شکم سیر ہوکر بھی کھانے میں طرح طرح کے نقص نکالتے ہیں اور خاص طورپر تقاریب میں تو یہ بات بہت زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے پیتے ہیں، اس کا اخراج بھی نعمتِ عظیم ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس نعمت سے نہ نوازا ہوتا تو ہم طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے، جس کا اندازہ ہمیں نظامِ ہاضمہ خراب ہو جانے پر ہوتا ہے، یعنی چند گھڑیوں کے اندر ہی ہمیں یہ دنیا بیکار اور بدصورت نظر آنے لگتی ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگوں کو یہ گلہ ہے کہ ہم سے زیادہ مصیبت کا مارا اور پریشانی میں مبتلا کوئی دوسرا نہیں ہے، جب کہ درحقیقت ہم سا دولت مند کوئی اور نہیں ہے۔ یہ ہاتھ پاؤں، آنکھ اور ناک کسی بھی طرح لاکھوں اور کروڑوں کی دولت سے کم نہیں ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے چند ایک ہیں، جب کہ ان کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے۔ اگر ہم ناشکری نہ کرکے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور خلوص دل سے دعا مانگیں تو ہمارے مصائب و آلام ضرور دُور ہو جائیں گے اور اگر ہم ناشکری کرتے رہے تو ہماری دنیا و آخرت دونوں خراب ہو جائیں گی۔

درحقیقت ناشکری بہت بڑی لعنت ہے، اس سے بنے بنائے کام بگڑ جاتے ہیں۔ اس لعنت میں خواتین زیادہ تر مبتلا ہیں۔ شب معراج جب آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو دوزخ کا مشاہدہ کرایا گیا تو آپﷺ نے دوزخ میں مردوں کے مقابل عورتوں کو زیادہ پایا، جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ عورتیں زیادہ ناشکری کرتی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بیشتر خواتین ذرا سی تکلیف پر گھروالوں خصوصاً شوہروں کو بُرا بھلا کہنے لگتی ہیں۔ ایسا کرتے وقت وہ بھول جاتی ہیں کہ شوہر کا مقام کیا ہے۔ ذرا سی پریشانی پر وہ پچھلی محبت و عنایت اور خدائے تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو فراموش کربیٹھتی ہیں، جس کی سزا آخرت میں تو ہے ہی، لیکن دنیا میں بھی ایسی سخت سزا ملتی ہے کہ دیکھنے والے کلیجہ مسوس کر رہ جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ جو شخص انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ خدائے تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہوسکتا۔ دراصل جو بھی نعمتیں ملتی ہیں، اس کے ذرائع تو مختلف ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ حق تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے۔ اگر ہم تکلیف و پریشانی کے وقت صبر کرنے کی بجائے کسی انسان کو بُرا بھلا کہتے ہیں تو دراصل ہم اللہ تعالیٰ کے حضور گستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کیونکہ جس طرح راحت و خوشحالی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں، اسی طرح تکلیف اور پریشانی بھی اسی کی جانب سے نازل کردہ ہیں، جو کبھی ہمارے گناہوں کے پاداش میں نازل ہوتی ہیں اور کبھی ہماری آزمائش کے لئے۔
قرآن کریم میں ہمیں آزمائش اور مصیبتوں سے نجات کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے کہ دعاؤں اور نمازوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کرو اور صبر سے کام لو۔ حق تعالیٰ نے اپنا یہ اصول بھی واضح طورپر بیان فرما دیا ہے کہ جب اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو وہ ان میں مزید اضافہ فرمائے گا۔

یوں تو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتیں ہیں، لیکن جو سب سے بڑی نعمت ہمیں عطا ہوئی ہے وہ ’’ایمان‘‘ ہے۔ اس نعمت پر ہماری نظر اس لئے نہیں جاتی کہ ہم مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں، اس لئے ازخود یہ نعمت ہمیں حاصل ہو گئی، جس کے سامنے دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں، اس نعمت پر ہم اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ ایمان اتنی قیمتی دولت ہے کہ اس کی جتنی بھی حفاظت کی جائے کم ہے، ہمیں ہر وقت اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر کرے۔ (آمین)