۔34 اسلامی ملکوں کا فوجی اتحاد

دہشت گردی اور انتہا پسندی دورحاضر کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ان سے عالمی سطح پر نمٹنے کی کوششوں کے درمیان سعودی عرب کی زیرقیادت 34 اسلامی ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف اتحاد بنایا ہے تو یہ احتیاطی اقدام کی جانب پہلی کوشش ہے۔ امریکی زیرقیادت ناٹو افواج نے اب تک مسلم ملکوں میں دہشت گردی کے خلاف اپنی لڑائی کے ذریعہ جو نقصانات اٹھائے ہیں اس کا نتیجہ ہے کہ آج دہشت گردی کا ساتھ دینے والی طاقتوں میں ایک بعد دیگر اضافہ ہورا ہے۔ القاعدہ، طالبان کا مقابلہ کرنے والی امریکی فوج کو اب دولت اسلامیہ یا داعش سے سخت سامنا ہے۔ اسی داعش نے عرب حکمرانوں کو بیدخل کردینے کا عہد کیا ہے۔ عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کی کارروائیوں اور خلیجی ملکوں میں مساجد پر سلسلہ وار حملوں کے ذریعہ داعش نے عرب و اسلامی دنیا کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ ایسے میں عرب اسلامی ملکوں کا فوجی اتحاد وقت کی اہم ضرورت سمجھا جارہا ہے۔ صدر امریکہ بارک اوباما نے بھی داعش کو انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ اب امریکہ کا اگلا نشانہ داعش ہے۔

القاعدہ طالبان کے بعد امریکی فوج داعش کا خاتمہ کرے گی۔ ایک طرف امریکہ دوسری طرف اسلامی ملکوں کا فوجی اتحاد دہشت گردی کے خلاف تنطیم کارروائیاں کرے گا تو آئندہ ساری دنیا کا امن و امان کیا رخ اختیار کرے گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ سعودی عرب کے دارالحکومت میں 34 اسلامی ملکوں کے اتحاد کا مرکز قائم کرتے ہوئے عراق، شام، لیبیا، مصر اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کامیاب بنانے کی مشترکہ کوشش کی جائیں گی۔ اب تک ہر ایک مسلم ملک دہشت گردی کے خلاف اپنے بل پر مقابلہ کررہا تھا لیکن سعودی عرب کے نائب ولیعہد اور شہزادہ و وزیر دفاع محمد بن سلمان نے آئی ایس آئی ایس کا مقابلہ کرنے کیلئے اتحادی کوششوں کو لامحدود بنانے کا عزم طاہر کیا ہے۔ ساری دنیا کے سامنے اس وقت سب سے سنگین مسئلہ دہشت گردی کا ہی ہے۔ اگر اس خطرے کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا عہد کیا گیا تو اس میں کامیابی کیلئے ہر زاویئے سے کوشش کی جانی چاہئے۔ امریکی زیرقیادت ناٹو اتحاد میں صرف ترکی ہی واحد مسلم ملک ہے جو ناٹو کا رکن ہے۔ ترکی نے سعودی عرب کے اتحاد کی کوشش کا خیرمقدم کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اسلامی ملکوں کے اتحاد سے ساری دنیا کو یہ پیام تو ضرور ملے گا جو لوگ دہشت گردی کو اسلام سے جوڑ رہے ہیں وہ غلط ہیں۔ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام میں انسانوں کا ناحق قتل گناہ ہے۔ انسانی وقار اور حقوق کی خلاف ورزی کو سخت ناپسند کیا جاتا ہے۔ اسلامی ملکوں کو اس نئی اتحادی طاقت سے توقعات پیدا ہوگئی ہیں کہ جو اسلامی ملک اس لعنت سے نبردآزما ہیں انہیں اسلامی اتحادی افواج سے مدد ملے گی۔ دہشت گردی کی وجہ سے طور اسلامی ممالک سب سے زیادہ متاثر رہے ہیں۔ ان میں پاکستان، ترکی اور مصر کے علاوہ لیبیا، یمن، افریقی ممالک جیسے مالی، صومالیہ اور نائجیریا میں جہاں دہشت گرد حملے ہوتے رہتے ہیں۔

اسلامی ممالک میں شدت پسندی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ جو لوگ زمین پر فساد برپا کرتے جارہے ہیں ان کا خاتمہ ضروری ہے۔34  اسلامی ملکوں کے اس اتحاد کا ہدف صرف دولت اسلامیہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس اسلامی اتحاد کو دہشت گردی کی ہر تنظیم کے خلاف کمربستہ ہونے کی ضرورت ہوگی۔ غور طلب حقیقت یہ ہیکہ یمن میں اس وقت سعودی عرب اور اس کے پڑوسی خلیجی ممالک کا اتحاد گذشتہ کئی ماہ سے حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ حوثی باغیوں کو بتایا جاتا ہے کہ ایران کی سرپرستی حاصل ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کامیاب بنانے کیلئے 34 اسلامی ملکوں کو عالمی برادری سے بھی بہتر روابط استوار کرنے ہوں گے۔ عربوں اور اسلامی ملکوں کو مخالف دہشت گردی کارروائیوں کے لئے قانونی جواز بھی پیدا کرنا ہوگا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب عالمی برادری کو ساتھ رکھ کر کارروائی کی جائے مگر ایسے میں عالمی برادری کی دوہری پالیسی حائل ہوتی ہے تو اسلامی ملکوں کا مخالف دہشت گردی اتحاد کو ناکام بنانے والوں میں یہی مغربی ممالک سب سے آگے ہوں گے۔ اس لئے سعودی عرب اور اس کے اتحادی ملکوں کو احتیاط پسندی اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کو یمن میں جس طرح کے حالات کا سامنا ہے اس کے تجربات اور مشاہدات کو ملحوظ رکھ کر ہی آگے کی لائحہ عمل کو قطعیت دینی چاہئے۔