یہ دنیا آرام گاہ نہیں بلکہ امتحان گاہ ہے

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
انسانی زندگی ہوا میں رکھے ہوئے چراغ کی مانند ہے۔ ضعیف آدمی اگر چراغِ سحر ہے تو جوان آدمی چراغِ شام ہے۔ جس طرح ہوا کی زد پر رکھا ہوا چراغ ایک ایک پل کا محتاج ہوتا ہے، اسی طرح انسانی زندگی بھی ایک ایک پل کی محتاج ہوتی ہے۔ جس طرح رونے والے انسان کی پلکوں پر آنسو پلک جھپکنے کا محتاج ہوتا ہے، یعنی پلک جھپکی اور وہ آنسو مٹی میں جاملا، اسی طرح انسان کی زندگی بھی پانی کے بلبلے کی مانند ہے، کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ بلبلہ کس وقت پھٹ جائے، صرف تھوڑی دیر کی بات ہوتی ہے۔ جس طرح پرندہ کسی شاخ پر آکر بیٹھتا ہے، تھوڑی دیر چہچہاتا ہے اور پھر اُڑکر چلا جاتا ہے، ہم بھی اسی پرندے کی مانند ہیں، اس دنیا کے درخت پر ہم تھوڑی دیر کے لئے آئے ہیں اور زندگی کا جتنا وقفہ ملا ہے، اس میں ہم چہچہا رہے ہیں، پھر تھوڑی دیر میں اُڑکر اپنے اصلی گھر پہنچ جائیں گے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم دنیا سے دل لگانے کی بجائے آخرت کی طرف دھیان دیں اور اس کی تیاری میں ہر وقت مشغول رہیں۔

ہم اس دنیا کے بازار سے گزر جائیں، مگر اس کے گاہک اور خریدار نہ بنیں۔ ہم طلب گار تو اللہ رب العزت کے ہیں، آخرت کے ہیں، دنیا تو مسافر خانہ اور امتحان گاہ ہے۔ یہ دنیا سیرگاہ نہیں، آرامگاہ نہیں، قیامگاہ نہیں، بلکہ امتحان گاہ ہے، افسوس کہ ہم نے اسے چراگاہ بنالیا ہے۔ ہم سجھتے ہیں کہ ہم دنیا میں چرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں، بس کھانا پینا اور موج مستی کرنا ہے۔ یاد رکھئے! کچھ لوگ دنیا میں کھانے پینے کے لئے زندہ رہتے ہیں اور کچھ لوگ زندہ رہنے کے لئے کھاتے پیتے ہیں، لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم زندہ رہنے کے لئے کھائیں اور اپنے مقصد (آخرت) کو سامنے رکھیں۔ اگر دنیا کے چند ایام ہم نے عیش و عشرت میں گزارکر آخرت کے عذابوں کو خرید لیا تو ہم نے بہت بُرا کام کیا۔ کسی بچے سے کہا جائے کہ ہم آپ کو ایک لالی پاپ دیتے ہیں اس کو چوس لو، لیکن اس کے بعد چند تھپڑ رسید کریں گے، تو ایک چھوٹا سا بچہ بھی اس کے لئے راضی نہیں ہوگا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم دنیا کے لالی پاپ پر اتنا فریفتہ ہو گئے کہ اسے چوسنے میں مشغول ہیں اور اس بات کو بھول گئے کہ عذاب دینے والے فرشتے آخرت میں ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ کاش! ہم آخرت کی تیاری کرلیتے۔

مرد و خواتین ہر ایک کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ ’’ہمارا ہر عمل نقص اور پریشانی سے محفوظ رہے‘‘۔ حج کے سفر پر جانا ہے، سات بجے فلائٹ ہے، اس وقت ہر ایک کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہم وقت سے پہلے ایرپورٹ پہنچ جائیں۔ اسی طرح اگر ہم سو افراد کو دعوت دیتے ہیں تو تقریباً ڈیڑھ سو افراد کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں، تاکہ وقت پر پریشانی اور شرمندگی نہ ہو، یعنی ہمارا ہر دنیاوی عمل محتاط ہوتا ہے۔ اگر کسی جگہ سو ٹافیاں رکھی ہوئی ہیں اور ان میں سے فقط ایک کے اندر زہر ہے اور ننانوی ٹھیک ہیں۔ اگر آپ کسی کو کہیں کہ ان میں سے ایک ٹافی کھالو، کیونکہ ان میں سے ننانوے ٹھیک ہیں صرف ایک میں زہر ہے، تو جواب یہ ملے گا کہ ’’میں ایک فیصد بھی رسک لینا نہیں چاہتا‘‘۔ ان تمام حالات، معاملات اور مثالوں پر غور کرنے کے باوجود ہم آخرت کے بارے میں اس طرح کی فکر نہیں رکھتے۔ کسی مرد سے پوچھیں کہ ’’آپ نے نماز ادا کی؟، تلاوت کی؟، دین کے لئے کچھ وقت نکالا؟، تو وہ کہے گا کہ ’’میرا کاروبار ایسا ہے کہ وقت ہی نہیں ملتا۔ میں کیا کروں، اکیلا ہوں، بہت زیادہ مصروف ہوں، کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے، نوکر چاکر ضرور ہیں، لیکن ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ مذکورہ مجبوریوں کے باوجود وہ اپنے کاروبار کو بڑھاتا رہتا ہے اور ایک دوکان کے بعد دوسری دوکان کی فکر میں لگا رہتا ہے اور اس کے لئے وقت بھی نکال لیتا ہے، لیکن وہ آخرت کی تیاری کے لئے وقت نہیں نکال سکتا۔ دراصل دنیا کی چیزیں آنکھوں کے سامنے ہوتی ہیں اور آخرت کی چیزیں پس پردہ ہوتی ہیں، اس لئے انسان اس پر کمزور یقین ہونے کی وجہ سے احتیاط نہیں برتتا۔

ایک بڑی مچھلی نے دوسری چھوٹی مچھلی کو نصیحت کی اور سمجھایا کہ اگر تم اس طرح کا کوئی کانٹا دیکھو، یا کوئی اس طرح کا کیڑا دیکھو، یا گوشت کا کوئی ٹکڑا دیکھو تو اس کے چکر میں نہ پھنسنا، کیونکہ اس کے پیچھے ایک دھاگہ ہوتا ہے اور دھاگہ کے پیچھے شکاری ہوتا ہے۔ اگر تم اس گوشت کے ٹکڑے کو کھانے لگوگی تو تمہارے گلے میں کانٹا چبھ جائے گا، پھر اس دھاگے کی مدد سے شکاری تمھیں کھینچ لے گا، پھر وہ گھر لے جائے گا اور اس کی بیوی چھری سے تمہارے ٹکڑے کرے گی، پھر وہ تمھیں مرچ اور نمک لگاکر تیل میں تلے گی، دسترخوان پر سجائے گی اور پھر سب مل کر تمھیں چباچباکر کھائیں گے، لہذا تم یہ کام مت کرنا کہ تمھیں برے دن دیکھنے پڑیں۔ اس نصیحت کے بعد اگر وہ چھوٹی مچھلی یہ کہے کہ ’’اچھا میں دیکھتی ہوں کہ وہ دھاگہ کہاں ہے؟، شکاری کہاں ہے؟، اس کی بیوی کہاں ہے، اس کا باورچی خانہ کہاں ہے؟‘‘ اور وہ اس کے لئے دریا کے پانی میں چکر لگاتی پھرے کہ کہیں یہ سب چیزیں مجھے نظر آجائیں تو وہ چیزیں وہاں اسے کہیں بھی نظر نہیں آئیں گی، ہاں اگر وہ اعتماد اور یقین کرلے اور نصیحت پر عمل کرے تو یقیناً اس میں اس کا ہی فائدہ ہے اور اگر نہیں مانے گی تو ایک دن کسی شکاری کا شکار بنے گی، پھر اسے دھاگہ بھی نظر آئے گا، شکاری کو بھی دیکھ لے گی اور وہ سارے مراحل اسے دیکھنے کو مل جائیں گے، جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ ’’لوگو! جب تمہاری موت آئے گی تو جنت سے بھی فرشتے آئیں گے اور جہنم سے بھی، اگر تم نیک انسان ثابت ہوئے تو جنت کے فرشتے تمہاری روح لے جائیں گے اور اگر بد انسان ثابت ہوئے تو جہنم کے فرشتے تمھیں لے جائیں گے۔ نیک لوگوں کی روحوں کو علیین میں لے جاتے ہیں جو اوپر ہے اور برے لوگوں کی روحوں کو سجین میں لے کا جاتے ہیں جو نیچے ہے۔ پھر نیک بندے کی قبر کو جنت کا باغ بنادیتے ہیں اور گنہگار کی قبر کو جہنم کا گڑھا۔ پھر قیامت کے دن سب لوگ کھڑے ہوں گے، اس دن عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ جو لوگ برے ہوں گے ان کو جہنم میں ڈالا جائے گا، جب کہ نیک لوگوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا‘‘۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کتنا واضح ہے، یقیناً جس بندے نے اس فرمان پر یقین کرلیا اور نیک اعمال ابھی سے کرنے شروع کردیئے، وہ یقیناً جنت میں داخل کیا جائے گا اور جس نے یقین نہیں کیا، وہ دنیا میں تو چند دن موج مستی کرلے گا، لیکن آخرت میں اس کو اپنے گناہوں کا عذاب جھیلنا پڑے گا۔ (اقتباس)