یہ انساں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں درندے

خواتین کی حفاظت اوران کے حقوق کے تحفظ کا سارے ملک میں ایک آوازہ ہے’’بیٹی بچائوبیٹی پڑھائو‘‘ کا خوبصورت نعرہ جس ملک کی پیشانی پر جگمگارہاہے اسی ملک میںبیٹیوں بلکہ کمسن معصوم بچیوں کی عفت وعصمت دائو پر لگی ہوئی ہے۔ ۲۰۱۴؁ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہردن اوسطا ۹۲خواتین کی عصمتیں لوٹی جاتی ہیں۔گجرات فسادات کا سب سے بڑاالمیہ خواتین کی عصمت ریزی رہا ہے، جموں وکشمیرمیں ہندوستانی فوج ملک کی سرحدوں کی حفاظت میں وہ تمغہء افتخارحاصل نہیں کرسکی جتنا خواتین کی عفت وعصمت لوٹنے کے گھنائونے جرم میںاس نے نام کمایاہے۔انسان نما درندوں کی وجہ انسانیت واخلاق میں ہماراملک کوئی مقام حاصل نہیںکرسکا،البتہ عصمت دری ،قتل وخون ،لوٹ مار،ظلم و فسادکی ایک غیرانسانی تاریخ ضروررقم کررہا ہے ۔ملک کی آزادی سے اب تک کا جائزہ لیا جائے تو بیشمار خواتین کی عزت وعصمت پرڈاکہ ڈالا گیا ہے، کچھ عرصہ قبل ملک کے پائے تخت دہلی میں ایک غیرمسلم لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی کا واقعہ سرخیوں میں رہاہے۔ضمیر کی آوازپرسارے شہری انسانیت کو شرمسار کرنے والے عصمت دری کے واقعہ پر بلبلااٹھے۔سارے ملک میں اسکے خلاف پرامن احتجاج منظم کئے گئے،جنسی تشددجرائم کے خلاف سارے ملک میں جاری احتجاج کی وجہ حکومت نے سخت قانون بنایا، تمام سیاسی جماعتوں نے بالاتفاق اس قانون کی منظوری دی۔اورنربھے جرم کے مرتکب کو سزادی بھی گئی ، قانون کی سختی کے باوجودجنسی تشددکے جرائم کالگاتار ایک سلسلہ ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ چنانچہ اب ایسے مجرمین کیلئے پھانسی دینے کی سزا کا قانون منظور کرلیا گیا ہے ۔ قانون چاہے جتنا سخت بنالیا جائے جب تک اس پرحکومت، امن وقانون کے محافظین ،پولیس اورعدلیہ پوری دیانتداری کے ساتھ قانون پر عمل آوری کویقینی نہیں بنائیں گے ،ایسا قانون روتے کے آنسوں تو پونچھ سکتا ہے ، لیکن اس سے نہ جرائم کا خاتمہ ہوسکتا ہے اورنہ مظلوموں کی دادرسی ہوسکتی ہے ۔کیونکہ بعض اسباب ووجوہ کی بناء بہت سے واقعات کی شکایت کا اندراج نہیں ہو پاتااور جو شکایات درج کی جاتی ہیں ان کی تحقیقات میں تساہل یا جانبداری یا ڈرانے دھمکانے کی وجہ یا پھر اکثر سیاسی اثر ورسوخ رکھنے والے خود مجرم ہوں یا مجرمین کے پشت پناہ بن جائیںتو پھر سزا کے نفاذ میں رکاوٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں،مظلوم عوام کو انصاف نہیں مل پاتا۔ کشمیرکے علاقہ میں انسان نما درندوں نے وہ بہیمیت مچائی کہ انسانیت کے حوالہ سے اب ہندوستان سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے،۱۰؍جنوری کوآصفہ نامی پھول جیسی حسین وجمیل آٹھ سالہ معصوم لڑکی جس کے قدم بچپن کی سرحدوں سے ابھی آگے نہیںبڑھ سکے تھے، انسان نما درندوں نے اپنی وحشیانہ ہوس کی آگ بجھانے کیلئے اس کو اپنے چنگل میں پھانس لیا،کٹھواعہ میں رسانی گائوں کے ایک چھوٹے مندرمیں یرغمال بنائے نشیلی ادویات کے سہارے ایک دونہیں آٹھ درندے ہفتہ بھر جارحانہ اندازسے اپنی شیطانی ہوس کی آگ بجھاتے رہے۔

پھروحشیانہ بربریت کے ساتھ اسکی زندگی کا چراغ گل کردیا، بہیمیت کو شرمسار کرنے والے اس پورے ڈرامہ میںدیوستھان کے نگران نے کلیدی رول اداکیا ہے،امن وقانون کے رکھوالے خودمجرمین کے پشت پناہ بن گئے ہیں ، اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے ۔ بی جے پی کے دو وزراء جوکٹھواعہ کے انسانیت کو شرمسارکرنے والے مجرمانہ کیس کے ملزمین کی حمایت میںنکالے گئے جلوس کے طرفداررہے ہیں، سپریم کورٹ نے اس کیس میں عدالتی عمل میں رکاوٹ پیداکرنے پربعض وکلاء پر سخت تنقیدکی،اس کیس کی چارج شیٹ کے مطابق تحقیقاتی آفیسرس ،ہیڈ کانسٹبل اورایک سب انسپکٹرنے اس کیس کے اصل ملزم سانجھی رام سے اس گھنائونے جرم کے ثبوت مٹانے کیلئے چارلاکھ روپئے رشوت حاصل کی ہے ،آصفہ کی عصمت ریزی پھراسکے بہیمانہ قتل کے شرمناک واقعہ کی وجہ انسانی احترام پر یقین رکھنے والے جمہوریت پسندتمام شہریوں کاپر امن احتجاج جاری ہے۔ملک وسماج کا ایسا کوئی گوشہ یا طبقہ نہیں ہے جواس شرمناک واقعہ پرغمزدہ نہ ہواہواوران درندوں کے ساتھ نفرت اوراپنے غم وغصہ کا اظہار نہ کررہا ہو،یہ بات خوش آئند ہے کہ ملک بھر میں آصفہ سے ہمدردی اورانصاف کیلئے احتجاج منظم کرنے والوں کی اکثریت غیر مسلم بھائیوں کی ہے جودرندگی وبربریت کے ننگے ناچ پروزیر اعظم اور حکومت کے بعض ذمہ داروںاور قانون اور مذہب کے بعض ٹھیکہ داروںاورلیڈرس کی خاموشی یا بے جا تائید کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ معصوم آصفہ کو انصاف دلانے اورخاطیوں کوکیفرکردارتک پہنچانے کا جوقانونی پہلوتھااسے جموںکی پولیس اورایک خاتون ایڈوکیٹ نبھارہی ہیں،اس کو قانون کے ادارے تک پہونچانے میں جموں وکشمیر کے اے ڈی جی آلوک پوری صاحب ،ڈی جی پی ایس پی وید صاحب اور انہوں نے اس کی تحقیق کیلئے جن کو متعین کیا وہ ہیں ڈی ایس پی کٹھواعہ شرماجی اورایس پی رمیش جھلہ۔ مختلف گوشوں سے ان پر دبائو کے باوجوداپنے فرض کوبحسن خوبی انسانی بنیادوں پر خوب نبھایا ہے،دوسری قابل تعریف، ہماری غیر مسلم بہن دپیکا سنگھ رجاوت ہیں جوہائیکورٹ میں آصفہ کے غریب خاندان کی طرف سے وکالت کا فرض پوراکررہی ہے ،ہماری یہ غیر مسلم بہن جوایک معصوم کے دردمندانہ واقعہ میں خود سراپا دردبن گئی ہیں وہ ایک کشمیر ی پنڈت خاندان سے تعلق رکھتی ہیں،اپنی زندگی اورمستقبل کودائو پر لگاکرانصاف کیلئے ڈٹی ہوئی ہیں،ان پر بھی مختلف گوشوں سے نہ صرف دبائو بنایا جارہاہے بلک دھمکایا جارہاہے،جمہوریت پسند انسانی احترام پر یقین رکھنے والے معصوم جانوں سے بہیمانہ سلوک کرتے ہوئے ان کی جان لینے والوں کی درندگی سے بلبلانے والے انصاف پسند تمام شہری ان کی ہمت وجرأت کی داددئیے بغیر نہیں رہ سکتے۔اس کیس کی تحقیق جموں کرائم برانچ کی جانب سے کی جارہی ہے

،لیکن بہیمیت کے مرتکبین کے بہی خواہ اس کیس کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ظاہر ہے سی بی آئی کے سپرد کرنے کی جان توڑکوشش اس کیس کو سردخانہ میں ڈالنے کی ایک کوشش ہے تاکہ درندے آزادی کا پروانہ حاصل کرکے درندگی مچاتے رہیں،انسان دشمن درندوں نے اس کیس کو ہندومسلم مسئلہ بنانے کی بہت کوشش کی تاکہ اس کیس کے درندوں کوراحت مل سکے ، لیکن شاباش ہمارے ملک کے ان غیر مسلم بھائیوں اورہماری اڈوکیٹ بہن کو کہ انہوں نے غیر جمہوری اقدارکی سمت قدم بڑھانے والے ملک میں حق وانصاف کیلئے انسانی کردارکا عملی پیام ساری انسانیت کو دیاہے۔ہمارے اس جمہوری ملک میں جنسی جرائم اورتشددکے واقعات میں روزبروزاضافہ ہے،ملک میں معصوم بچوں اوربچیوں کے خلاف تشددوجنسی جرائم کا نہ تھمنے والا ایک سیلاب ہے۔ لکھنؤ کے علاقہ انائو میں بی جے پی رکن اسمبلی کی گرفتاری عمل میں آئی ہے ،ایک ۱۷؍سالہ لڑکی جورکن اسمبلی کواپنا بھائی مانتی تھی ،ملازمت کی تلاش میں اس سے رجوع ہوئی تھی اسکی عصمت ریزی کا کلنک اس منہ بولے بھائی پرلگاہے جوڈھٹائی کے ساتھ قانون کا تمسخرکرتے ہوئے متاثرین کو ڈرانے ،دھمکانے میں مصروف رہاہے۔اسکے حامی اوررشتہ داربھی متاثرہ لڑکی کی کردارکشی کی کوشش کرتے رہے ہیں،جب یہ لڑکی انصاف کیلئے قانونی اداروں سے رجو ع ہوئی تو اسکے والد کو ایک جھوٹے کیس آرمس ایکٹ میں ماخوذ کرتے ہوئے جیل کی سلاخوں میں بند کردیا گیا،پھربھی وہ لڑکی انصاف کی تلاش میں اپنی مہم سے دستبردارنہیں ہوئی تواسکے والدکوعدالتی تحویل میں شدید زدوکوب کرتے ہوئے موت کی نیندسلادیاگیا ،چوری اورسینہ زوری کا محاورہ ان جیسے انسان نما درندوں پر پوری طرح صادق آتاہے۔انتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ کھٹواعہ کیس کی طرح انائو کیس کے ملزم بی جے پی رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کی تائید میں ریالی نکالی گئی ہے ۔ جس میں کثیر تعداد میں احتجاجی پلے کارڈ تھامے ہوئے تھے جس پر لکھا تھا’’ ہمارے ودھائک نردوش ہیں‘‘۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ نردوش ہیں تو پھر دوشی کون ہے۔اترپردیش ضلع ایٹا میں ایک درندہ سونوجانونے ۷؍سالہ لڑکی کوعصمت ریزی کرنے کے بعدوحشیانہ اندازمیںگلاگھونٹ کرہلاک کر دیا،عصمت ریزی اوردیگرجرائم میں اس وقت پورے ملک میں اترپردیش کوپہلا مقام حاصل ہوگیاہے،۔مدھیہ پردیش بھی جرائم کے واقعات میں آگے ہے،نیشنل کرائم ریکارڈس بیوروکے مطابق ۲۰۱۳ء میں ۴۳۳۵۔ ۲۰۱۴ء میں ۵۰۷۶۔ ۲۰۱۵ء ۴۳۹۱عصمت ریزی کے واقعات درج ہوئے ہیں۔یہ تعدادملک بھرمیں ہونے والی عصمت ریزی کا چودہ فیصد ہے،ریاست ہریانہ میں بھی وحشیانہ جنسی درندگی کے واقعات بڑے شرمناک ہیں،۱۵؍سالہ دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی اوراسکے نازک اعضاء کے ساتھ وحشیانہ چھیڑ چھاڑ جس کی وجہ وہ خون میں لہولہان تھے ،اسکی نعش بھی مسخ شدہ حالت میں جندضلع میں دستیاب ہوئی۔ پانی پت میں ۱۱؍سالہ دلت لڑکی کو اسکے پڑوسیوں نے جنسی درندگی کا نشانہ بنایا ، پھراسکوقتل کردیاگیا ،یہ واقعات ۲۰۱۸ء نئے سال کے آغازمیں درج کئے گئے،سال گذشتہ ماہ اگست میں ۱۵؍سالہ لڑکی سونی پت میں اجتماعی عصمت ریزی کا شکارہوئی اوراسکو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ،یہ معاملہ اس لڑکی کے حاملہ ہونے کے بعد منظرعام پرآیا،۱۰؍ڈسمبرہریانہ کے علاقہ ہسار میں ایک چھ سالہ معصوم لڑکی کے ساتھ درندگی کا معاملہ کیا گیا، نوجوان اوربڑی عمرکی خواتین کے ساتھ بھی عصمت ریزی کے واقعات ریکارڈ کئے گئے ہیں۔یہ وہ واقعات ہیں جوپولیس تھانوں میں درج ہوسکے ہیں ورنہ ایسے واقعات پوری ریاست میں کہیں نہ کہیں مواضعات ودیہات میں روزہی رونما ء ہورہے ہیںلیکن ایسے بہیمانہ واقعات اس سے کہیں زیادہ ہیں جو بدنامی یا خاطیوں کے جبرودبائو اورانکی سخت دھمکیوں کی وجہ منظرعام پر نہیں آتے۔درج شدہ غیر انسانی اجتماعی جبری عصمت ریزی کے واقعات کوبنیادبنایا جائے تواین سی آربی کے اعدادشماربتاتے ہیں کہ اس ریاست میں ۲۰۱۶ء میں اجتماعی عصمت ریزی کے ۱۹۱؍واقعات ہوئے ہیںجو ملک کی اوسط شرح سے کہیں زیادہ ہیں۔اس تناظر میں انصاف پسند سارے شہریوں کا فرض بنتا ہے کہ احترام انسانیت دستور وقانون کی بالا دستی اور ملک کے سیکولر کردار کی برقراری وتحفظ کیلئے متحدہ کوشش کریں ورنہ ملک میں جنگل راج قائم ہوجائے گا ،اور سیکولر ملک کا کردار باقی نہیں رہ سکے گا۔