یو پی ‘ ہندوتوا کی لیبارٹری

اب نہ وہ میں ہوں نہ وہ گھر ہے نہ وہ شامِ فراق
تیرے آنے سے بدل جاتے ہیں منظر کتنے
یو پی ‘ ہندوتوا کی لیبارٹری
اترپردیش میںآدتیہ ناتھ کے چیف منسٹر بننے کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرستوں نے اپنے عزائم کی تکمیل کا مشن پوری شدت کے ساتھ شروع کردیا ہے ۔ پہلے غیر قانونی مسالخ کو بند کرنے کے نام پر گوشت کے تاجرین کو نشانہ بنانے کا عمل شروع کیا گیا تھا ۔ آدتیہ ناتھ کے حلف لینے سے قبل ہی اترپردیش کے گاووں میں مسلمانوں کو دھمکیاں ملنی شروع ہوگئی تھیں ۔ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ گاوں چھوڑ دیں یا پھر نتائج کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں۔ آدتیہ ناتھ چیف منسٹر تو بن گئے ہیں لیکن ایسا تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ چیف منسٹر کے دفتر سے سرکاری کام کاج کی بجائے ہندو یو ا واہنی کی سرگرمیاں چلائی جا رہی ہیں۔ اب میرٹھ میں باضابطہ طور پر میونسپل کارپوریشن میں مسلمان کونسلرس کو وندے ماترم پڑھنے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے اور ایسا کرنے سے انکار پر ان کونسلرس کی رکنیت کو ختم کردیا گیا ہے ۔ یہ ملک کی جمہوریت کا قتل ہے ۔ ان کارپوریٹرس کو رائے دہندوں نے اپنے ووٹ سے منتخب کیا تھا اور وہ عوام کے منتخبہ نمائندے ہیں۔ اس کے باوجود میرٹھ میونسپل کارپوریشن کے مئیر نے ان پر وندے ماترم پڑھنے کا لزوم عائد کیا اور جب یہ کونسلرس وندے ماترم گانے سے انکار کرتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے تو ان کی رکنیت کو ہی ختم کرنے کی تجویز کو کونسل میں منظوری دیدی گئی ۔ یہ سراسر ہندوتوا ایجنڈہ ہے اور سکیولر ہندوستان میں اس کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی ۔ وندے ماترم کو میرٹھ میونسپل کارپوریشن کے مئیر نے قومی گیت قرار دیا ہے ۔ ایسا بالکل نہیںہے ۔ ہندوستان کا قومی ترانہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ہے جسے علامہ اقبال نے تحریر کیا تھا ۔ وندے ماترم ہندوتوا نظریہ پر مشتمل ہے اور اسلامی شریعت کسی بھی طرح کے شرکیہ کلمات کو ادا کرنے کی اجازت نہیںدے سکتی ۔ ہندوستان کے قانون اور دستور میں یہ گنجائش ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والے افراد اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں اور دستور نے ان کے مذہبی حقوق کا تحفظ بھی فراہم کیا ہے ۔ اس کے باوجود مسلمان کونسلرس کو وندے ماترم پڑھنے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے جو سراسر غیر دستوری اور غیر قانونی عمل ہے ۔ اسے پڑھنے سے گریز کرنے پر ان کی رکنیت ختم کرنا غیر جمہوری عمل بھی ہے اور ایسا کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہوسکتی ۔
ویسے تو یوگی آدتیہ ناتھ کی سرگرمیاں ابتداء ہی سے ہندوتوا کے پرچار والی رہی ہیںاور وہ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف نفرت اور زہر اگلتے رہتے ہیںلیکن جب انہیں اترپردیش جیسی ملک کی سب سے بڑی ریاست کی ذمہ داری سونپی گئی اور اس پر اندیشے ظاہر کئے جانے لگے تو ملک کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ انہیں ابتداء میںکسی ایک نظریہ سے باندھ دینا مناسب نہیں ہوگا بلکہ انہیں کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے ۔ ابھی انہیں پوری طرح سے موقع ملا بھی نہیں ہے کہ انہوں نے ریاست کی حالت بدلنے ‘ وہاں ترقی لانے اور وہاں کے عوام کو مشکلات سے نجات دلاتے ہوئے راحت کا سامان کرنے کی بجائے آدتیہ ناتھ اور ان کے ہمنوا افراد نے سرکاری کام کاج کو آگے بڑھانے کی بجائے ہندوتوا کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانا شروع کردیا ہے ۔ اترپردیش جیسی ملک کی سب سے بڑی اور اہم ترین ریاست کو ہندوتوا کی لیباریٹری میں تبدیل کیا جا رہا ہے جس طرح سے گجرات میں نریندرمودی کے چیف منسٹر بننے کے بعد کیا گیا تھا ۔ نریندر مودی تو اب ملک کے وزیر اعظم بن گئے ہیں لیکن ملک کی اس حساس ترین ریاست کو ہندوتوا لیباریٹری میں تبدیل کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے جس کو روکنے کیلئے سبھی گوشوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ ہر سکیولر ذہن اور ملک کیلئے فکر رکھنے والے شہری کو اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فرقہ پرست عناصر اپنے عزائم کی تکمیل میں کامیاب نہ ہونے پائیں اور ان پر روک لگائی جاسکے تاکہ اس ملک میں بے چینی کی فضا پیدا نہ ہونے پائے ۔
ملک کے جمہوری اور دستوری اداروں کا اپنا ایک وقار اور احترام ہوتا ہے اور اس کو برقرار رکھنے کیلئے ہر کسی کو اپنا فرض ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اترپردیش میں جو صورتحال پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ تمام صحیح العقل اور سکیولر ذہنیت کے حامل افراد اپنے فریضہ کی ادائیگی کیلئے کمر کس لیں اور فرقہ پرستوں کو یہ واضح پیام دینے کی کوشش کی جائے کہ وہ بھلے ہی اقتدار میں ہوں لیکن وہ اپنی من مانی نہیں چلا سکتے ۔ اقتدار مل جانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ انہیں غیر دستوری اور غیر جمہوری کام کرنے کی اجازت اور آزادی مل گئی ہے ۔ ملک کے اعلی ترین عہدہ پر فائز افراد کو بھی ملک کے دستورا ور قانون کے تابع رہنا ہوگا اور انہیں اسی بات کا حلف بھی دلایا جاتا ہے ۔ اترپردیش حکومت کیلئے ضروری ہے کہ وہ ریاست کو ہندوتوا کی لیباریٹری بنانے کی بجائے ریاست کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔ عوام نے ووٹ بھی اسی مقصد کیلئے دیا تھا۔