یو پی میں ہجومی تشدد ‘لا قانونیت

ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ایسا لگتا ہے کہ قانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ خود قانون کے رکھوالے پولیس اہلکاروں کو ہجوم تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار رہا ہے ۔ حالیہ چند دنوںمیں اس طرح کے دو واقعات پیش آگئے ہیں۔ پہلے تو 3 ڈسمبر کو گئو دہشت گردوں کی جانب سے تشدد میں ایک پولیس انسپکٹر کو گولی مار دی گئی ۔ یہ جھڑپ اس وقت شروع ہوئی تھی جب گئو ذبیحہ کی فرضی اطلاع گشت کروائی گئی تھی ۔ بعد کی تحقیقات میں یہ بات واضح ہوگئی کہ خود گئو دہشت گردوں نے کسی جانور کو قتل کرنے کے بعد اس اطلاع کو گشت کروایا تھا اور پھر تشدد پر اتر آئے اورا یک انسپکٹر کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ۔ اس کے بعد ہفتے کو وزیراعظم نریندرمودی کی غازی پور میں ریلی کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ایک پولیس کانسٹیبل کو سنگباری کرتے ہوئے ہلاک کردیا گیا ۔ یہ کانسٹیبل وزیر اعظم کی ریلی میںسکیوریٹی ڈیوٹی انجام دینے کے بعد واپس ہو رہا تھا ۔ ایک مقام پر شاہراہ پر راستہ روک دیا گیا تھا جس کو ختم کرنے کی کوشش کے دوران ہجوم تشدد پر اتر آیا اور اس نے سنگباری کردی ۔ سنگباری کی زد میں آکر یہ کانسٹیبل زخمی ہوگیا پھر وہ زخموں سے جانبر نہ ہوسکا ۔ یہ دونوں واقعات چند دنوں میںپیش آئے ہیں اور ان سے ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی انتہائی ابتر صورتحال اور ہجومی تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔

یہ لا قانونیت کی مثال ہے اور اس کے ذریعہ بے چینی پھیلائی جارہی ہے ۔ حالات سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ گئو دہشت گردوں کو جو کھلی چھوٹ دی گئی تھی اس کے اب منفی اثرات مرتب ہونے لگے ہیں اور یہ لوگ لا اینڈ آرڈر کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہیں اور ہر کام اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔ ہر اس شخص کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں جو ان کے نفرت پر مبنی ایجنڈہ کی راہ میں رکاوٹ محسوس ہونے لگتا ہے ۔ پولیس عہدیدار اور عملہ لا اینڈ آرڈر کی برقراری کیلئے ہوتا ہے ۔ عوام کی جان و مال کی حفاظت کیلئے ہوتا ہے لیکن اگر اسی فورس کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو پھر عوام میں بھی ایک طرح کے عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوگا اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں پر سے عوام کا بھروسہ ختم ہوجائیگا ۔ایسا نہیں ہے کہ اترپردیش میں حالات اچانک ہی ابتر ہونے لگے ہیں۔ جس وقت سے آدتیہ ناتھ کی حکومت اس ریاست میں قائم ہوئی ہے اس وقت سے ہی گئو دہشت گردوںاور فاشسٹ عناصر کے حوصلے بلند ہونے لگے تھے ۔ پہلے تو آدتیہ ناتھ کی حکومت نے پولیس کے ذریعہ انکاونٹرس کی پالیسی اختیار کی تھی اور کچھ غنڈہ عناصر کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا تھا تاہم دھیرے دھیرے ہجومی تشدد نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے ۔ محض بے بنیاد اطلاعات اور واٹس ایپ کے پیامات پر سڑکوں پر اترکر تشدد برپا کرنا فاشسٹ عناصر کا وطیرہ بن گیا ہے اور ان کے حوصلے اس لئے بھی بلند ہونے لگے ہیں کہ ایسا عناصر کے خلاف سرکاری سطح پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ بلکہ جو عناصر کسی طرح قانون کے شکنجے میں آجاتے ہیں انہیںضماتیں دلائی جاتی ہیں اور ضمانتوں کے بعد مرکزی وزرا ان کی گلپوشی کرتے ہیں۔ اس طرح سے ان کے حوصلے بڑھائے جاتے ہیں۔ یہ وہ اقدامات جن کے نتیجہ میںہجومی تشدد کی روایت زور پکڑتی جا رہی ہے اور یہ نہ صرف اترپردیش یا کسی ایک اورریاست کیلئے بلکہ سارے ملک کیلئے اچھی علامت نہیں ہے ۔ اس سے ملک کا امن چین درہم برہم ہونے لگے گا ۔ اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کی حکومت لا اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے ‘ ہجومی تشدد کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے مندر بنانے یا پھر رام کا مجسمہ نصب کرنے کے منصوبوںپر کام کر رہی ہے ۔ اس کے سامنے نظم و نسق نہیں ہے بلکہ فرقہ پرستانہ ایجنڈہ ہے جس کی وجہ سے حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہجومی تشدد سے نمٹنے کیلئے سپریم کورٹ نے تمام ریاستوں کو قانون سازی کرنے کی ہدایت دی تھی لیکن اترپردیش میں اس تعلق سے اب تک کوئی پیشرفت نہیںہوئی ہے بلکہ ہجومی تشدد کے واقعات نے وہاں نیا رنگ اختیار کرلیا ہے اور خود پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی روایت پیدا ہوئی ہے جو انتہائی افسوسناک ہے اور اس سے ریاست کے امن و ضبط پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ پولیس فورس کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے اور یہ شبہات بھی ہیں کہ عمدا فورس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ وہ ان فاشسٹ عناصر سے خوف محسوس کرے۔ ریاستی اور مرکزی حکومت کو اس طرح کے واقعات کے تدارک کیلئے فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔