یو پی میں لا قانونیت کا راج

انسان دم بخود ہے تماشوں کے درمیاں
جمہوریت کا ناچ ہے لاشوں کے درمیاں
یو پی میں لا قانونیت کا راج
اترپردیش ملک کی سب سے بڑی اور حساس ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ ملک میں سب سے زیادہ جرائم والی ریاست بھی ہے ۔ یہاں جرائم کا گراف کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ نیشنل کرائم بیورو کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ یو پی میں ہر طرح کے جرائم عروج پر ہیں۔ یہاںقتل ‘ عصمت ریزی ‘ ڈاکہ زنی ‘ لوٹ مار ‘ اقدام قتل ‘ خواتین کے خلاف جرائم اور دلتوں و اقلیتوں کے خلاف جرائم کے واقعات حد سے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ سارے ملک کے اعداد و شمار میں اترپردیش وہ ریاست ہے جہاں سب سے زیادہ جرائم پیش آتے ہیں۔ اس کے باوجود چیف منسٹر آدتیہ ناتھ ریاست میں حالات کو قابو میں کرنے میں پوری طرح سے ناکام ہیں۔ وہ ریاست میںجرائم کی شرح پر قابو پانے کیلئے اقدامات کرتے نظر نہیں آتے اورا یسا لگتا ہے کہ پولیس مشنری پر ان کا کوئی کنٹرول یا راج نہیں رہ گیا ہے ۔ پولیس دھڑلے سے انکاؤنٹرس کرتی جا رہی ہے اور ان میں کئی انکاؤنٹرس کے فرضی ہونے کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔ چیف منسٹر پولیس پر عائد ہونے والے ان الزامات کی تحقیقات کروانے کی بجائے پولیس کی پشت پناہی میں مصروف ہیں اور وہ ان انکاؤنٹرس کی حمایت میں بیانات دے رہے ہیں۔ ان کا ادعا ہے کہ پولیس اس طرح کی کارروائیوں کے ذریعہ مجرمین کا صفایا کر رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس مجرمین کا صفایا کرنے کی بجائے خود جرائم کا ارتکاب کرنے لگی ہے۔ گذشتہ دنوں دو ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن سے یو پی پولیس کی قلعی کھل گئی اور پولیس کی غنڈہ گردی اور فرقہ پرستی دونوںہی واضح ہوگئے ۔ پہلے واقعہ میں ایک ہندو لڑکی کو ایک مسلمان لڑکے کے ساتھ لائبریری میں بیٹھنے پر مارپیٹ کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس لڑکی کو طعنے دئے گئے ۔ اس کے ساتھ غیر شائستہ زبان استعمال کی گئی اور مسلمان سے دوستی کی پاداش میں اس کے خلاف انتہائی رکیک جملے کہے گئے ۔ یہ یو پی پولیس کی فرقہ پرستی اور فرقہ واریت کی مثال ہے ۔ لڑکی کو اپنے مسلمان دوست کے خلاف پولیس میںعصمت ریزی کی شکایت درج کروانے کیلئے خود پولیس نے مجبور کیا لیکن لڑکی نے ایسا نہیں کیا ۔
دوسرے واقعہ میں رات دیر گئے ایک معروف فون کمپنی کے ایگزیکیٹیو کو دو پولیس کانسٹیبلوں میں گولی مار کر ہلاک کردیا ۔ یہ ایگزیکیٹیو اپنی کمپنی کی تقریب میں شرکت کے بعد اپنی ایک ساتھی کو اس کے گھر چھوڑنے جا رہا تھا کہ راستہ میں پولیس نے اسے گولی ماردی ۔ جو وجوہات اب بتائی جا رہی ہیں وہ انتہائی احمقانہ ہیں ۔ جن پولیس کانسٹیبلوں نے اس شخص کو گولی ماردی ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے حفظ ماتقدم میں گولی چلائی ہے جبکہ اس بات کے کوئی اشارے نہیں ہیں کہ ان کی جان کو کوئی خطرہ بھی لاحق ہوسکتا تھا ۔گولی بالکل سامنے سے چلائی گئی جو کار کے ونڈ اسکرین کوچیرتے ہوئے اس ایگزیکیٹیو کے چہرے کے نچلے حصے کو چیرتی ہوئی نکل گئی اور وہ شخص اپنی جان گنوا بیٹھا ۔ عوامی برہمی اور ناراضگی کو دیکھتے ہوئے حالانکہ ان دونوں کانسٹیبلوں کے خلاف کارروائی کی گئی انہیں جیل بھیجا جا رہا ہے ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے لیکن محض دو کانسٹیبلوں کے خلاف کارروائی کافی نہیں ہے ۔ یو پی پولیس کی ساری صفوں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس میں فرقہ واریت اور غنڈہ گردی سرائیت کر گئی ہے ۔ پولیس فورس پولیس کی طرح کم اور غنڈوں کی طرح زیادہ کام کر رہی ہے اور ان کی ذہنیت سماج کا شیرازہ بکھیرنے میں اہم رول ادا کر رہی ہے ۔ ایسے عناصر پولیس فورس کو بدنام اور رسوا کرنے کا موجب بن رہے ہیں اور حکومت خاموش ہے ۔
آدتیہ ناتھ چیف منسٹر بننے کے بعد یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ ریاست میںمجرمین کی کوئی خیر نہیںہے اور انہیںقومی دھارے میں شامل ہونا پڑیگا ۔ مجرمین تو قومی دھارے میں شامل ہوتے نظر نہیںآر ہے ہیں لیکن خود پولیس مجرمین کی راہ پر چل پڑی ہے ۔ آدتیہ ناتھ پولیس فورس پر کوئی گرفت یا کنٹرول رکھنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ وہ انتظامیہ پر بھی پوری طرح سے کنٹرول نہیں بناپائے ہیں اورا س کا لازمی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پولیس بے لگام ہوتی جا رہی ہے ۔ ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بگڑتی جا رہی ہے ۔ جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جار ہا ہے اور ریاست میں عام عوام کیلئے امن چین سے جینا مشکل ہوتا جار ہا ہے ۔ آدتیہ ناتھ حکومت کو بہت زیادہ تاخیر ہونے سے قبل حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔