یو پی اور بہار ‘ 2019 کا نوشتہ دیوار

ہمیں سنبھال کے رکھنا کہ ہم امانت ہیں
ابھی جو آئی نہیں وہ بہار ہیں ہم لوگ
یو پی اور بہار ‘ 2019 کا نوشتہ دیوار
ملک کی مختلف ریاستوں میں لوک سبھا کی چار اورا سمبلی کی 10 نشستوں کیلئے ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آگئے ہیں۔بی جے پی اپنی لوک سبھا کی دو نشستوں پر شکست سے دوچار ہوچکی ہے اور اس کی حلیفوں کے مقابلہ میں اس کی مخالف جماعتوں کی کامیابی زیادہ بہتر دکھائی دے رہی ہے ۔ یو پی میں کیرانہ لوک سبھا اور اسمبلی کی نور پور نشست سے بی جے پی اپنی تمام تر کاوشوں اور شدت کی انتخابی مہم اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوششوں کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔ اسی طرح مہاراشٹرا میں حالانکہ اس نے پالگھر لوک سبھا نشست پر اپنا قبضہ برقرار رکھا ہے لیکن بنڈارا ۔ گونڈیا لوک سبھا حلقہ میں اسے واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اس نشست سے بی جے پی کے نانا پتولے نے استعفی دیدیا تھا ۔ انہوں نے استعفے سے قبل بی جے پی کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا تھا اور نتائج میںاس کا اثر دکھائی دیا ہے ۔ کانگریس نے اسمبلی کی تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے اور اب وہ میگھالیہ میں واحد بڑی جماعت کے موقف میں آگئی ہے ۔ مغربی بنگال میں ممتابنرجی اپنا حلقہ اثر ہنوز محفوظ اور مستحکم رکھنے میں کامیاب رہی ہیں۔ کیرالا میں بائیں بازو کی جماعتوں کی گرفت اب بھی مضبوط دکھائی دے رہی ہے اور بہار میں تیجسوی یادو نے ایک اور کامیابی حاصل کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ وہ لالو پرساد یادو کے سیاسی جانشین بننے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔ جوکی ہاٹ اسمبلی نشست کیلئے آر جے ڈی امیدوار نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے جو تیجسوی یادو کی قائدانہ صلاحیتوں کے ثبوت کے علاوہ یہ بھی اشارہ ہے کہ بہار کے عوام نتیش کمار کو زیادہ عرصہ تک برداشت کرنے کے موڈ میں اب نہیں ہیں۔ یہ نتائج ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کیلئے 2019 کا سفر مشکل کرتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ بی جے پی اس مشکل کو سر عام قبول کرنے کے موڈ میں نہیں ہے اور اسے اس بات کا بھی یقین ہے کہ 2019 کے آتے آتے وہ اپنے فرقہ پرستی کے ایجنڈہ اور پھر بکاؤ میڈیا کی مدد سے ماحول کو اپنے حق میں کرنے میں کامیاب ہوجائیگی لیکن یہ سب کچھ اب اتنا آسان نظر نہیں آتا ۔
خاص طور پر یو پی اور بہار کے حالات بی جے پی اور اس کی حلیف نتیش کمار کی جنتادل یو کیلئے پریشان کن ہیں۔ یو پی میں گورکھپور اور پھولپور کے ضمنی انتخابات میںکراری شکست کے بعد خود یوگی آدتیہ ناتھ نے کیرانہ لوک سبھا اور نور پور اسمبلی کے ضمنی انتخاب کی مہم میں حصہ لیا تھا ۔ بہار میں نتیش کمار نے بھی سابقہ ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد جوکی ہاٹ کی انتخابی مہم چلائی تھی ۔ اس کے باوجود یہاںدونوں جماعتوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اور یہی بات زیادہ قابل تشویش ہے ۔ یو پی میں متحدہ اپوزیشن کی وکالت کرنے والوں کو ان نتائج نے استحکام بخشا ہے ۔ کیرانہ اور نور پور میں اپوزیشن نے غیر ضروری سیاسی مخالفتوں کو برقرار رکھنے اور ضابطہ کی تکمیل کیلئے انتخاب لڑنے سے گریز کیا ۔ ان کے سامنے ایک ہی مقصد تھا کہ بی جے پی کو شکست سے دوچار کیا جائے ۔ اس مقصد کیلئے اپوزیشن جماعتوں نے آپس میں اتحاد کیا اور اس کے نتائج آج سارے ملک کے سامنے ہیں۔ یو پی اور بہار سیاسی اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل ریاستیں ہیں اور یہاں لوک سبھا کی سب سے زیادہ نشستیں ہیں۔ بی جے پی اور جے ڈی یو کو ان میں کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں اور انہیں امید تھی کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں بھی ایسا ہی ہوگا ۔ تاہم اب اپوزیشن اتحاد اور نتیش کمار سے عوام کی بیزاری نے صورتحال بدل کر رکھ دی ہے اور سیاسی حلقوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ان دونوںریاستوں کے ضمنی انتخابی نتائج 2019 کا نوشتہ دیوار ہیں اور بی جے پی اور جے ڈی یو کی مشکلات میں اضافہ ہوگا ۔
یو پی میں جس طرح سے کامیابی حاصل ہوئی ہے اس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کیلئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اسی آزمودہ طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے بی جے پی کی آئندہ کامیابیوں کا سلسلہ روکیں۔ حقیقت پسندانہ انداز میں اپنی اپنی طاقت کو پیش نظر رکھ کرنشستوں کی تعداد پر دعوے کئے جائیں ۔ ملک اور خود اپوزیشن کے مفاد میں ضرورت پڑنے پر جذبہ ایثار سے کام لینے سے بھی گریز نہ کیا جائے ۔ ان دو ریاستوں میں بی جے پی کو روکا جاسکا تو پھر دہلی اس کیلئے بہت دور ہوجائے گی ۔گجرات ‘ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی بی جے پی کیلئے سفر مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ ان حالات میں یو پی اور بہار میں خاص طور پر اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ بی جے پی کو شکست سے دوچار کرنے ان سے جو کچھ بن پڑتا ہے وہ کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔