یو پی انتخابات ‘ سکیولر اتحاد

ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ریاست اتر پردیش میں جیسے جیسے اسمبلی انتخابات کیلئے وقت قریب آتا جا رہا ہے سیاسی جماعتوں کی بے چینیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ہر سیاسی جماعت جو چاہے اپوزیشن میں ہو یا حکمران جماعت ہو یا محض چند حلقوں تک محدود جماعت ہو ہر کوئی ان انتخابات کیلئے اپنے اپنے طور پر تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ہر جماعت یہی چاہتی ہے کہ انتخابات میں اسے زیادہ سے زیادہ ووٹ ملیں اور زیادہ سے زیادہ نشستوں پر اس کا قبضہ ہوسکے ۔ بی جے پی اس ریاست کو انتہائی اہمیت دے رہی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ یہاںبھی مرکز کی طرح اسے اقتدار حاصل ہوجائے ۔ اس کو اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اسے مرکز میں اقتدار حاصل ہوا ہے تو یہ اتر پردیش کے عوام کے ووٹوں کی وجہ سے ہی ملا ہے ۔ اتر پردیش میں بی جے پی نے لوک سبھا کی نشستوں پر زبردست کامیابی حاصل کی تھی ۔ اسی وقت سے پارٹی کو اتر پردیش میں اقتدار کی فکر لاحق ہوگئی ہے اور اس کیلئے کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ بی جے پی نے لوک سبھا انتخابات سے قبل مظفر نگر فسادات کو ہوا دی تھی اور اس کا فائدہ بھی حاصل کیا تھا ۔ اب پارٹی اسی طرح کی کوئی حرکت کرنے کی کوشش میںہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کیرانہ کا مسئلہ اٹھانے کی کوشش کی گئی کہ یہاں سے ہندو نقل مقام کر رہے ہیں۔ حقیقت ایسی نہیں ہے بلکہ یہاں ہندو اور مسلمان سب سے زیادہ مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے عیدوں و تہواروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود بی جے پی نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی ۔ بی جے پی شائد اب کوئی دوسرا ہتھکنڈہ اختیار کرے ۔ پارٹی صدر امیت شاہ باربار یو پی کے عوام کو ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ اتنے کامیاب نہیں ہوسکے ہیں ۔ اس کے باوجود اتر پردیش کے عوام اور وہاں کی سکیولر جماعتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کو آگے بڑھنے سے روکیں۔ انہیں انتخابی میدان میں شکست دیتے ہوئے سکیولر طاقتوں کو استحکام بخشا جائے کیونکہ اسی سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے ۔اگر فرقہ پرستوں کو یو پی میں نہیں روکا جاسکا تو انہیں ملک کی دوسری ریاستوں میں روکنا آسان نہیں رہ جائے گا ۔

آر جے ڈی کے سربراہ لالو پرساد یادو نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ یو پی میں سکیولر جماعتوں کو متحدہ مقابلہ کرنا چاہئے ۔ یقینی طور پر بہار میں بھی بی جے پی نے سر دھڑ کی بازی لگا کر انتخابات کا سامنا کیا تھا لیکن وہاں بھی اسے منہ کی کھانی پڑی تھی ۔ یہ شکست سکیولر اتحاد کی وجہ سے ممکن ہوسکی تھی ۔ کانگریس ہو یا آر جے ڈی یو یا جے ڈی یو ہو سبھی نے متحد ہوکر مقابلہ کیا تھا اور یو پی میں بھی ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے ۔ یو پی میں سکیولر طاقتوں اور دلت طاقتوں کا اتحاد کسی بھی جماعت کو کامیابی دلا سکتا ہے لیکن اگر سکیولر طاقتیں اپنے جھوٹے بھرم کا شکار ہوجائیں اور ایک دوسرے کی کاٹ میںانتخابی میدان میں اتر جائیں تو پھر بی جے پی کیلئے کامیابی مشکل نہیں رہ جائیگی ۔ ریاست میںسماجوادی پارٹی نسبتا کمزور پڑ گئی ہے اور بہوجن سماج پارٹی کو بھی سازشوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اگر دوسری سکیولر جماعتیں بھی صورتحال کو سمجھنے سے قاصر رہیں تو پھر انہیں بھی انتخابات کے بعد اپنے وجود کا احساس دلانا تک مشکل ہوجائیگا ۔ چاہے سماجوادی پارٹی ہو یا بی ایس پی ہو دونوں ہی یو پی میں اقتدار کی دعویدار ہیں اور ان کی حکمت عملی مختلف ہوسکتی ہے لیکن جہاں تک  جے ڈی یو اور آر جے ڈی کا سوال ہے وہ یو پی میں اقتدار کی دوڑ کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ۔ ایسے میں ان جماعتوں کو اپنے وجود کا احساس دلانے کی بجائے سکیولر طاقتوں کو متحد کرنے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی میں خود ان جماعتوں کی بقا بھی شامل ہے ۔ سکیولر اتحاد کے نام پر بی جے پی کیلئے راستہ ہموار کرنے کی کوششیں ہرگز نہیں ہونی چاہئیں۔

ہر سکیولر جماعت یہ سمجھنے کی غلطی نہ کرے کہ صرف وہی بی جے پی کو روک سکتی ہے ۔ بی جے پی نے سماج میں نفرت کو فروغ دینے کی مہم شروع کررکھی ہے ایسے میں سکیولر طاقتوں کو مشکلات ضرور پیش آسکتی ہیں لیکن صورتحال ان کیلئے بھی مایوس کن نہیں ہے ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہر سکیولر جماعت کا مطمع نظر صرف یہ ہو کہ بی جے پی کو یہاں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے اور اقتدار حاصل کرنے سے روکا جائے ۔ ہر جماعت اگر خود اپنی کامیابی کیلئے کوشش کریگی تو اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ تمام سکیولر جماعتوں کو صرف سکیولر ازم کو مستحکم کرنے اور فرقہ پرستوں کو روکنے کا مقصد لے کر کام کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ لالو پرساد یادو نے بہار میں کیا تھا ۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ہر سکیولر جماعت اگر پوری سنجیدگی سے فرقہ پرستوں کو روکنے کے مقصد سے کام کریگی تو یقینی طور پر ان کو کامیابی مل سکتی ہے ۔