یوں بھی ہوتا ہے

پسینے میں شرابور ، دل گھبرایا ہوا اور پیٹ میں ہول اٹھ رہے تھے ۔ حتی کہ اب تو آنکھیں بھی ساون کی طرح مینہ برسانے لگی تھیں ۔ کانپتی زبان کے ساتھ اس کے منہ سے پانی نکلا ۔ اس سے پہلے کے کوئی اسے پینے کیلئے پانی کا گھونٹ دیتا وہ بے ہوش ہوگیا ۔ دو آدمی فوراً اس کی طرف لپکے اور ایمبولنس میں لٹاکر ہسپتال کی طرف بڑھ گئے ۔ جہاں اسے ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی اور اسے ہوش میں لانے کیلئے انجیکشن وغیرہ لگائے گئے ۔ تاحال معاملہ جوں کا توں تھا ۔ حشام اپنے والدین کا بہت پیارا بیٹا تھا اور پانچ بہنوں کا ایک ہی بھائی تھا ۔ جس کی وجہ سے سب کی آنکھ کا تارہ تھا ۔ حشام کی عمر جیسے ہی چار سال ہوئی اسے شہر کے ایک اسکول میں داخل کروادیا گیا ۔

وہ متوسط درجے کا طالب علم تھا ۔ وقت بجلی کی طرح گذرتا رہا ۔ منٹ گھنٹوں میں ، گھنٹے دنوں میں اور دن سالوں میں بٹتے چلے گئے ۔ آخر وہ دن بھی آگیا جب اس نے میٹرک کا امتحان تقریباً اچھے نمبروں سے پاس کرلیا ۔ اب اسے فرسٹ ایر میں داخلہ لینا تھا جو کہ اس کے مستقبل کی زندگی کا اہم موڑ تھا ۔ اس نے شروع سے ہی انجینئر بننے کی دل میں ٹھان رکھی تھی ۔ اس لئے اس نے ایف ایس سی نان میڈیکل گروپ میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا ۔ یہ فیصلہ ان کے والد کو ایک آنکھ نہ بھایا اور اس کی سوچ اپنے بیٹے کے اس فیصلے سے بالکل برعکس تھی ۔ چنانچہ انہوں نے اسے F.Sc میڈیکل گروپ میں داخلہ لینے کو کہا ۔ وہ یہ سنکرمشعل ہوگئے جب بیٹے نے یہ ماننے سے انکار کردیا اور انہوں نے سختی سے یہ حکم ان پر صادر کردیا ۔ بیوی نے جب اس معاملے میں نرمی برتنے کا کہا اور بیٹے کے حق میں تجویز دی تو ملک صاحب نے یہ کہہ کراس کو چپ کرادیا کہ یہ میرا بیٹا ہے جو میں کہتا ہوں اسے وہی کرنا پڑے گا ۔ اس بارے میں آپ کو بولنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ خیر حشام کو F.Sc میڈیکل گروپ میں داخل ہونا پڑا ۔

گھسیٹ گھوسٹ کر اس نے ایف ایس سی بھی کلئیر کرلی ۔ اب اگلہ مرحلہ انٹری ٹسٹ کی تیاری تھا ۔ جسے پاس کرنا اس کیلئے ہاتھی کی دم میں رسی ڈال کر کھینچنے کے مترادف تھا ۔ وہ اس کی تیاری میں بالکل دلچسپی نہیں لے رہا تھا ۔ کیونکہ یہ شعبہ اور راستہ اس کی سوچ اور دلچسپی کے بالکل برعکس تھا ۔ پھر وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا وہ اس ٹسٹ میں بری طرح فیل ہوچکا تھا ۔ اس کے ابو نے اسے دوبارہ اس کی تیاری کرنے کو کہا ۔ وہ دوبارہ نہ چاہتے ہوئے اس کی تیاری میں جٹ گیا ۔ اب وہ تیسری بار کمرہ امتحان میں ٹسٹ دینے کیلئے بیٹھا تھا لیکن اس کا دل اور اس کی سوچ اسے بالکل قبول کرنے پر آمادہ نہ تھی ۔ نہ ہی اس کے پاس الہ دین کا چراغ تھا جو اسے ٹسٹ حل کروادیتا ۔ انہیں سوچوں میں گم اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا ۔ کمرہ امتحان میں داخل ہوتے وقت جب وہ باہر کھڑی ایمبولنس کی لائٹ کو دیکھتا تو اس کا جی گھبرانے لگتا اور آج وہ خود اس میں لٹاکر ہسپتال میں لے جایا گیا تھا ۔ اس کے تین سال ضائع ہوچکے تھے ۔ اب اس کے ابو کے ذہن میں بھی یہ بات آگئی تھی کہ اس کا بیٹا اور بیوی سچ کہتے تھے مجھے اس وقت اس کی رائے لینا چاہئے تھی ۔ میں نے اپنی عقل اور سمجھ پر حد سے زیادہ بھروسا کیا جو مجھے مہنگا پڑگیا ۔ والدین کو اپنی خواہشات کا اتنا غلام نہیں بننا چاہئے کہ بعد میں پچھتانا پڑے ۔ اس میں بچے کی رضامندی اور اختیار کو فوقیت دی جانی چاہئے ۔ لیکن اب پچھتانے کا کوئی فائدہ نہ تھا کیونکہ حشام کے تین قیمتی سال ضائع اور اس کا تعلیمی مستقبل تاریک ہوچکا تھا ۔