یوم آزادی

جن کو احساس دوسروں کا ہے
کچھ نہ کچھ کر وہی گذرتے ہیں
یوم آزادی
ہندوستان کو انگریزوں کے دور میں ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہا جاتا تھا۔ آزادی کے آج 70 سال بعد بھی یہ ملک ساری دنیا میں ترقی پذیر ملکوں کی فہرست میں ہی اٹکا ہوا ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں سیاستدانوں نے مفاد پرستی، فرقہ پرستی اور نفرت کی سیاست کے جو کھیل کھیلے ہیں اس کا نتیجہ ہے کہ آج 70 سال بعد بھی ملک کی ایک بڑی آبادی غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ان میں بیشتر تو بنیادی سہولتیں تک دستیاب نہیں ہیں۔ وہ ملک جسے تاریخ میں قابل فخر روادار ملک قرار دیا جاتا تھا آج اس ملک کے وزیراعظم کو عدم رواداری کے واقعات پر خاموش دیکھا جارہا ہے۔ انتہائی حساس مسائل پر بھی وزیراعظم ہند لب کشائی کرنے کو تیار نظر نہیں آرہے ہیں۔ ہر میدان میں اعلی مقام رکھنے والے ہندوستان کے وزیراعظم کو ’’میک ان انڈیا‘‘ کی شروعات کرنی پڑرہی ہے۔ یہ بدبختی کی بات ہے کہ سونے کی چڑیا والے ملک کو بیرونی سرمایہ کاری سے آس و امید باندھنی پڑرہی ہے۔ 15اگست 2017ء ملک کے عوام کو آزادی کے ساتھ ایک موقع فراہم کررہا ہے کہ وہ ملک کو فرقہ پرست طاقتوں سے آزاد کرانے کی تحریک میں شامل ہوجائیں۔ اجتماعی کوششوں کے ذریعہ عوامی زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں کیوں کہ اب اس ملک میں انسانی قدروں پر توجہ دینے سے زیادہ جانوروں کے تحفظ کے لیے انسانی خون بہانے کی نفرت پر مبنی تحریک چل پڑی ہے۔ آزادی کے پس منظر میں آج کے حالات کا مشاہدہ کریں تو افسوس ہوگا کہ ہندوستان ایک حقیقی سکیولر، جمہوری اور فلاحی ملک تھا لیکن آج صرف فرقہ پرستوں کے اشاروں پر چلایا جانے والا ملک بن کر رہ گیا ہے۔ ہندوستان کے بعد آزاد ہونے والے ملکوں نے ترقی کی ہے خاص کر چین دو سال بعد آزاد ہوا، لیکن اس کی معیشت سب سے زیادہ مستحکم ہے۔ ہمارے ملک میں ترقی کے نام پر ڈھنڈورہ پیٹا جاتا ہے۔ حد درجہ بڑھتی غربت، لاچاری اور بے بسی کو دور کرنے کی صرف زبانی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ حکمرانوں کے ہاتھوں تباہ ہونے والے اس ملک کی دردناک تصویر آج اب تمام کے سامنے موجود ہے۔ موجودہ حکومت نے یوم آزادی کو ’’یوم عہد‘‘ منانے شہریوں پر زور دیا ہے۔ عوام کو چاہئے کہ وہ آج کے ان سکیولر ملک کے حق میں عہد کریں اور فرقہ پرستوں، دہشت گردوں، رشوت خوروں سے پاک ملک بنانے کی جدوجہد کریں۔ سال 2022ء میں آزادی کی 75 ویں سالگرہ منانے والے ہندوستان کو آئندہ 5 سال کے دوران ایک نئے جوش و خروش کے ساتھ ترقی یافتہ ملک بنانے کا عہد کرنا ہے۔ شہریوں کو ترقی کے حصول کا عہد کرانے والی حکومت اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہے۔ اترپردیش کے شہر گورکھپور میں سرکاری دواخانہ میں آکسیجن کی عدم سربراہی کی وجہ سے 60 سے زائد کم سن بچوں کی موت اس حکومت کی کارکردگی کا آشکار کرتی ہے جو اپنی حکمرانی کو سب سے بہتر حکومت تصور کررہی ہے۔ ملک کی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے واقعات پر خاموش ہے۔ گائورکھشک کے نام گائو دہشت گردی کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے والی پالیسیوں پر عمل ہوا ہونے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کو 70 سال بعد بھی اس ملک کا دوسرے درجہ کا شہری تصور کیا جارہا ہے۔ فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کے تعلق سے گمراہ کن پروپگنڈہ کرکے دیگر ابنائے وطن کے نزدیک ان پر اعتماد کرنے کے جذبہ کو ناکام بنایا جارہا ہے۔ بی جے پی نے حب الوطنی کا لفظی معنی ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ مرکزی طاقت کو مزید قوی بنانے کی کوشش، ساتھ ملک کے وفاقی ڈھانچہ کو نقصان پہونچانے کی کوشش ہورہی ہے۔ جی ایس ٹی کے ذریعہ علاقائی معیشت کو تباہ کیا جارہا ہے۔ ہندوستانی سیاست کو فرقہ پرستی سے آلودہ کرکے اب مزید گندگی کی طرف بڑھایا جارہا ہے۔ آزاد ہندوستان میں سکیولرازم کی دعویدار پارٹی کانگریس میں ایک ایسی جماعت ہے جس نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ پورے ملک میں حکمرانی کرنے والی کانگریس آج چند ایک ریاستوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کی وجوہات بے شمار ہیں، موجودہ حکومت کی کارکردگی پر میڈیا چپ ہے۔ پارلیمنٹ بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ عدلیہ کو گویا حکومت کی خرابیوں زیادتیوں کے معاملہ کی طرف توجہ کی توفیق نہیں ہوتی تو پھر بحیثیت قوم ہندوستانی عوام کو ہی فکر سہی کی ضرورت ہے۔ عوام کو موجودہ حالات میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ملک کے مجموعی حالات کو بہتر بنانے آگے آنا ہوگا۔ یہ ان کی ذمہ داری اور فریضہ بنتا ہے۔