یمن میں امن کی بحالی ضروری

کسی اور کو میرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ کوئی واسطہ
میں بکھر گیا ہوں سمیٹ دو ، میں بگڑ گیا ہوں سنواردو

یمن میں امن کی بحالی ضروری
یمن میں جاری لڑائی کو حتم کرنے اور امن مذاکرات کے ذریعہ دو متحارب گروپس میں صلح صفائی کرانے کی کوشش کے حصہ کے طور پر اقوام متحدہ کے سفیر مارٹن گریفتھ کا دورہ یمن سے کئی توقعات وابستہ کرنے والوں کو یہ بھی اُمید ہے کہ ڈسمبر میں ہونے والی مجوزہ امن مذاکرات سے قبل یمن میں دو متحارب گروپس کو صبر و تحمل اختیار کرنے کی تلقین کرنے میں کامیابی ملے گی۔ اقوام متحدہ کے سفیر نے شہر بحرہ احمر پر قبضہ رکھنے والے باغیوں کو امن کا پیام روانہ کیا ہے۔ اس دورہ کے دوران بھی اس علاقہ میں جھڑپیں جاری رہنا صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں یہ بات خوش آئند ہے کہ دونوں متحارب گروپس نے اقوام متحدہ کے سفیر کے مشن کی حمایت کی ہے اور مذاکرات کرانے ان کی کوشش کی ستائش بھی کی ہے۔ امن مذاکرات کو ترجیح دینے میں سعودی زیرقیادت اتحاد میں اہم رول ادا کرنے والے متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ انور غرغش نے امن مذاکرات کو یقینی طور پر کامیاب بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے اور ایک مثبت کوشش ہے کیوں کہ یہاں 2014 ء میں اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ حکومت کو بیدخل کردیئے جانے کے بعد سے بدامنی کے حالات میں دن بہ دن ابتری آرہی ہے اور یہ حالات 2015 ء کے بعد سے مزید خراب ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ یمن میں گزشتہ 3 سال سے قحط سالی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اس میں اب تک 85 ہزار بچے فوت ہوچکے ہیں۔ یمن کی ایک کروڑ آبادی کو اس وقت شدید خشک سالی کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو اس ملک میں ابھی مذاکرات کے ساتھ ساتھ خشک سالی کی سنگین صورتحال سے یمنی باشندوں کو بچانے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ یمن میں اگر جنگ کے ساتھ ساتھ خشک سالی کی یہ کیفیت مزید خراب ہوتی ہے تو یہاں انسانی بحران پیدا ہوجائے گا۔ اقوام متحدہ کو یمن کی صورتحال کا اندازہ ہے تو اسے تباہ شدہ ملک کو مزید تباہ ہونے سے بچانے کی فکر کے ساتھ کارروائی کرنی ہوگی۔ عالمی اداروں خاص کر انسانی بحران سے نمٹنے والے اداروں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ جنگ اور فاقہ کشی کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ دو کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر و بے یار و مددگار ہوجانے کی بھی اطلاعات نے انسانی جذبہ رکھنے والی دنیا کو مضطرب کردیا ہے۔ خشک سالی نے خوراک کا مسئلہ پیدا کیا ہے تو جنگ نے امن و امان و سکون کو چھین لیا ہے۔ ہر دو جانب سے یمنی باشندے بُری طرح متاثر ہیں۔ اموات اور مصائب کا شکار افراد کی تعداد کا پتہ چلانا مشکل ہے۔ یہ بحران جتنا جلد ختم کردیا جائے اتنا اچھا ہوگا۔ خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کو انجام دینے میں ہونے والی کوتاہیوں کو بھی دور کرتے ہوئے اس علاقہ تک غذائی اشیاء کی سربراہی کو یقینی بنانا عالمی ادارہ کی ذمہ داری ہے۔ اقوام متحدہ نے یمن کی موجودہ صورتحال پر نظر رکھی ہے اور یہاں کا ڈیٹا بھی رکھنا ہے تو اسے خشک سالی، غذا اور اموات کے واقعات کا نوٹ لیتے ہوئے متبادل کارروائیاں کرنے پر فوری توجہ دینی ہوگی۔ اقوام متحدہ ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے غذا کی تقسیم کا عمل جاری تو ہے مگر ابتر صورتحال سے یمنی باشندوں کو باہر نکالنے کے لئے یہ کافی نہیں اب جبکہ اقوام متحدہ کے سفیر کی جانب سے امن مذاکرات کی تازہ کوششیں ہورہی ہیں اور ان کوششوں کو دونوں متحارب گروپس کی تائید بھی حاصل ہے تو اُمید کی جاتی ہے کہ امن مذاکرات کو کامیاب بناکر یمن میں پھر سے سکون بحال کرکے یمنی باشندوں کو راحت پہونچائی جائے گی۔
آر بی آئی کی قدر گھٹادینے کی کوششیں افسوسناک
ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) ہندوستان کا ایک مضبوط مالیاتی نگرانکار ادارہ ہے اس کی اہمیت و افادیت پر اب تک کسی قسم کی آنچ آنے نہیں دیا گیا لیکن موجودہ مرکزی حکومت نے ملک کے کئی اہم اداروں کے ساتھ کھلواڑ شروع کیا ہے۔ ان میں اب آر بی آئی کی اہمیت کو گھٹادینے والی کوشش افسوسناک ہے۔ گزشتہ دنوں آر بی آئی کی بورڈ میٹنگ ہوئی اس میں کیا تبادلہ خیال ہوا یہ واضح نہیں ہوسکا۔ آر بی آئی کی ویب سائٹ پر اس اجلاس کے بارے میں جو صبح سے شام 7 بجے تک جاری رہا، صرف چند سطور پیش کئے گئے تھے۔ آر بی آئی کے داخلی موقف سے پتہ چلتا ہے کہ ممبئی کے بینکرس اور دہلی کے وزارت فینانس کے درمیان گہرے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ مرکزی حکومت خود کو آر بی آئی کا ’’باس‘‘ ثابت کرنے کی ہر نکتہ ہر طریقہ سے کوشش کررہی ہے۔ اب سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ آخر آر بی آئی کو اس دگرگوں کیفیت کا شکار کیوں ہونا پڑرہا ہے۔ آر بی آئی کو مودی حکومت کے نشانہ پر کیوں کر لاکھڑا کیا گیا۔ مودی حکومت مسلسل ملک کے اہم اداروں کو نشانہ بنارہی ہے۔ ان کے اختیارات پر قابض ہونا یا ان اختیارات کو سلب کرنے کی کوشش کے افسوسناک واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ اس خطوط پر مودی حکومت نے آر بی آئی کو بھی اپنی غلامی کے لئے مجبور کردیا ہے جو حکومت ملک کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اور اپنی معاشی پالیسیوں جیسے گڈس اینڈ سرویس ٹیکس (جی ایس ٹی) کے خراب نتائج کے بعد بدنام ہوتے جارہی ہے تو اپنی گرتی ساکھ کو بچانے کے لئے آر بی آئی کو پریشان کرنا شروع کیا ہے جو ملک کے معاشی مستقبل اور مالیاتی صورتحال کے لئے مناسب نہیں ہے۔ جی ایس ٹی کی وجہ سے ملک کے اندر لاکھوں افراد بے روزگاری کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کا لہجہ بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ اس نے پکوڑے بیچنے کا مشورہ دینا شروع کیا اور وزیراعظم مودی نے روزگار پیدا کرنے کے لئے نوجوانوں کو پکوڑے بیچنے کے لئے مجبور کردیا۔ ملک کا بینکنگ شعبہ جن مسائل سے دوچار ہے اس کو دور کرنے کے بجائے حکومت نے آر بی آئی کو ہی اپنی پالیسیوں کے ذریعہ پریشان کرنا شروع کیا ہے تو پھر مائیکرو، اسمال، میڈیم صنعتوں کے لئے قرض کی فراہمی کو کس طرح یقینی بنایا جائے گا۔