یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے

پیامِ اقبال

۱۸۵۷؁ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کی حالت ہر لحاظ سے اور ہر سطح پر پستی کو پہنچ چکی تھی ۔ علمی اور فکری انحطاط روز افزوں بڑھتا جارہا تھا۔ مسلمان قوم سیاسی اعتبار سے ناکام ہوچکی تھی ۔ عملی اعتبار سے انتہائی پستی کو پہنچ رہی تھی لیکن اس قوم کے آغوش میں ایسے افراد بھی موجود تھے جنھوں نے ہر سطح پر مسلمانوں کو ہمت و حوصلہ دینے اور پستی سے اُٹھانے کے لئے ہرممکنہ کوشش کی ، دوسری طرف مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی تعلیم و فکر قوم کے باشعور طبقہ کو پنے دام فریب میں کھینچ رہی تھی ۔ ایسے وقت میں اﷲ تعالیٰ نے جس عالی ہمت مردانِ خدا سے احیاء دین و تجدید ملت کا کام لیا اُن میں علامہ محمداقبال (۹؍ نومبر ۱۸۷۷؁ء تا ۲۱؍ اپریل ۱۹۳۸؁ء ) سرفہرست ہیں جو بیسویں صدی کے مایاناز مفکر ، ممتاز قانون داں ، نبض شناس سیاستداں بلند پایۂ صوفی ، عظیم مصنف ، اُمت کے حکیم اور بے مثال شاعر تھے ۔ آپ کے تجدید خدمات کی ایک اعلیٰ مثال یہ ہے کہ جب عالمی سطح پر اسلامی حکومت کا زوال ہورہا تھا عین اسی وقت انھوں نے ایک اسلامی جمہوری حکومت کا نظریہ پیش کیا جو ان کے وصال کے بعد پاکستان کی شکل میں ظاہر ہوا ۔ شومۂ قسمت کہ پاکستان کے بددیانت قائدین نے پاکستان کے منشاکو پس پشت ڈالکر دنیوی حرص و طمع میں حیوانیت اور درندگی کے حدود کو بھی پار کرگئے اور افسوس کہ وہ ملک جو تمام جمہوری ممالک کے مابین اسلام کے ایک جمہوری نظام حکومت کا ایک اعلیٰ ماڈل ہوسکتا تھا وہی نشانۂ عبرت و ملامت بن گیا ۔ بہرکیف نبض شناس اُمت علامہ اقبال نے تجدید دین اور احیاء اسلام کے لئے دشمنانِ دین نیز مغرب کے الزامات اور اعتراضات کا براہ راست جواب دینے کے بجائے نئی نسل کی ذہنی تشکیل سازی اور ملت اسلامیہ کے ایک ایک فرد کو بیدار کرنے ان کو اپنی حقیقت سے واقف کروانے اور ایک اجتماعی تنظیم کے ذریعہ عظمت رفتہ کو بحال کرنے پر زور دیا ۔
ملت اسلامیہ کے ایک شخص کو مخاطب کرتے ہوئے حقیقت کا شعور دینے کی کامیاب کوشش کی ۔ جمہور علماء ، فقہاء ، صوفیاء ، متکلمین اور مصلحین کے طرز سے ہٹ کر حقیقت اسلام کی تشریح و تعبیر کے نئے اسالیب اختیار کئے اور پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔ فرماتے ہیں :
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسماں و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
موج کوثر کے مصنف فلسفۂ اقبال کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : ’’اقبال کے فلسفہ کا مقصد کامل انسان کی نشوونما ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے اس نے اپنے فلسفہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ ایک تو انسان کی وہ نشوونما جو ذاتی اور انفرادی طورپر ہوتی ہے ۔ اس کا ذکر اسرار خودی میں ہے ۔ رموز بے خودی میں انسانی تربیت اور ارتقاء کی اس منزل کا بیان ہے جو انسان اجتماعی طورپر اور ایک ملت کا جز ہوکر طے کرتا ہے ۔ اقبال کے فلسفہ کا ماحصل یہ ہے کہ انسان ذاتی محنت اور اصلاحی کوششوں سے (۱)اطاعت ( ۲) ضبط نفس اور (۳) نیابت الٰہی کی تین منزلیں طے کرتا ہوا خودی کی انتہائی بلندی پر پہنچے اور اپنی ان روحانی اور مادی ترقیوں کو ملت کے لئے وقف رکھے ۔
علامہ اقبال نے عقائد اسلام اور ارکانِ دین کی تشریح کرتے ہوئے ان حقائق کو بے نقاب کیا ہے جن کی وجہ سے یہ دین ، ’’دینِ حیات‘‘ کہلاتا ہے ، اس میں جمود ، اضمحلال ، شکست و ناکامی ، مایوسی و نامرادی ، ڈر و خوف کی کوئی گنجائش نہیں ۔
عقیدۂ توحید علامہ اقبالؔ کے نزدیک ایک زندہ قوت کا نام ہے جو صرف زبانی اقرار و اظہار کا نام نہیں ، بلکہ ایمان و ایقان سے اس کی تعبیر کی گئی ہے اور جب یہ توحید کسی بندہ کے دل میں سرایت کرجاتی ہے تو وہ اس بندہ کو غیر کے تصور ، غیر کے خوف اور غیر کے اثر و نفوذ سے بالکل بے پرواہ کردیتا ہے ۔ اور وہ توحید کا حامل ہوکر تمام دنیوی اور مادی قیود و حدود سے بالاتر ہوجاتا ہے ، دنیا کی کوئی طاقت وقوت اس کے عروج و ترقی کو روک نہیں سکتی ۔ بندۂ مومن کو اس کی حقیقت سے آشنا کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؎
آشنا اپنی حقیقت سے ہو ، اے دہقاں ذرا
دانہ تو ، کھیتی بھی تو ، باراں بھی تو ، حاصل بھی تو
کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا
ناخدا تو ، بحرتو ، کشتی بھی تو ، ساحل بھی تو
شعلہ بن کے پھونک دے خاشاک غیراﷲ کو
خوفِ باطل کیا ہے غارت گر باطل ہے تو
بے خبر تو ، جوہر آئینہ ایام ہے
تو زمانہ میں خدا کا پیغام ہے
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے
کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو
دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے
توہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگیٔ داماں بھی ہے
عقیدۂ توحید مسلمان کے لئے عقائد اسلام کا ایک اہم حصہ ہی نہیں ، بلکہ وہ ایسی غیبی طاقت و قوت کا نام ہے جس کے ادراک سے حواس ظاہری اور عقل انسانی عاجز و قاصر ہیں اور جب بندۂ مومن لاالہٰ الااﷲ کا اقرار کرتا ہے تو وہ ’’لاالہ‘‘ سے اﷲ کے سوا کسی کے معبود ہونے کی صرف نفی نہیں کرتا بلکہ وہ اعلان کرتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی طاقت و قوت والا نہیں ۔ کوئی نفع و نقصان پہنچانے والا نہیں ۔ کوئی کارساز نہیں ، کوئی مداوا نہیں ، کوئی ہمدرد نہیں ، کوئی مددگار نہیں ، بس وہی وحدۂ لاشریک فاعلِ حقیقی متصرف بالذات ہے اور جب یہ ایمان اپنے کمال کو پہنچ تا ہے تو بندۂ مومن خوفِ دنیا ، خوفِ عقبیٰ ، خوفِ آلامِ میں و اسماں سے بے نیاز ہوجاتا ہے ۔ علامہ اقبالؔ فرماتے ہیں
خودی کا سرِّ نہاں لاالہٰ الااﷲ
خودی کا تیغ فساں لاالہٰ الااﷲ
اسی کی طرف حضرت غریب نواز خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ رہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں
سرداد ، نہ داد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لاالہ ہست حسین ؓ
حضور پاک ﷺ اسی پیغام توحید کے ذریعہ دنیائے انسانیت میں ایک عظیم انقلاب بپا کیا تھا اور جام توحید پلاکر عرب کے بدؤں کو علم و حکمت اور جہانبانی و جہانگیری کا وہ سلیقہ دیا تھا کہ دنیا کے عظیم سے عظیم حکمراں ان کے زیرنگیں ہوگئے اور آج وہی عقیدۂ توحید اہل علم کے نزدیک فن کلام کا ایک دقیق موضوع بنا ہوا ہے ؎
زندۂ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیاہے ؟ فقط اک مسئلہ علم کلام
اﷲ تعالیٰ علامہ اقبالؔ کی قبر کو نور سے بھردے اور ہم سب کی طرف سے اس عظیم محسن کو اجر جزیل عطا فرما۔