ہیلاری کلنٹن نے ڈونالڈ ٹرمپ کو پریشان کردیا

امریکی صدارتی انتخابی مباحثہ ، عراق جنگ اور بے روزگاری نمایاں موضوعات، ہلاری کی شعلہ بیانی کو برتری

ہیمشیلڈ ۔ 27 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ میں پہلے صدارتی مباحثے کے دوران رپبلکن اور ڈیموکریٹ امیدواروں کے درمیان نوکریوں، دہشت گردی، نسل پرستی اور عراق کی جنگ کے معاملے پر گرما گرم بحث ہوئی ۔ نیویارک میں دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان پیر کی شب یہ مباحثہ 90 منٹ جاری رہا اور اس میں جہاں ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی حریف کا مزاج صدارت کے لیے غیرموزوں قرار دیا وہیں ہلاری نے ٹرمپ کی جانب سے اپنی ٹیکس کی معلومات ظاہر نہ کرنے پر تنقید کی۔ ری پبلیکن اْمیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ ناقص تجارتی معاہدوں کی وجہ سے ملک میں ’ملازمتوں کے مواقع‘ ختم ہو رہے ہیں۔ اْن کی حریف ڈیموکریٹس کی اْمیدوار ہلاری کلنٹن نے وعدہ کیا کہ اگر وہ صدر بنتی ہیں تو ملک میں ایک کروڑ ملازمتوں کے مواقع پیدا کریں گی اور ملک میں سرمایہ کاری بڑھائیں گی۔ انتخاب سے قبل جائزوں کے مطابق ڈونالڈ ٹرمپ اور ہلاری کلنٹن کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ مباحثے کے دوران ٹرمپ نے امریکہ کی معیشت کی تعریف کچھ اس طریقے سے کی ’ہم ایک بڑے، موٹے، بھدے غبارے میں بند ہیں۔‘ مباحثے کے منتظم لیسٹر ہالٹ کی جانب سے ٹیکس گوشواروں کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ڈونالڈ ٹرمپ نے محتاط رویہ اختیار کیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ اگر اْن کی حریف تحقیقات کے دوران 33 ہزار حذف کی گئی ای میلز منظر عام پر لائیں گی تب وہ بھی اپنے ٹیکس گوشوارے سامنے لائیں گے۔ سابق سیکریٹری خارجہ مسز کلنٹن نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی تعریف کرنے پر ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ری پبلیکن اور صدارتی امیدواروں کے درمیان صدر اوباما کی جائے پیدائش کے معاملے پر بھی گرما گرم بحث ہوئی۔ ٹرمپ نے کہا کہ انھیں تو بہت پہلے سے یقین ہے کہ صدر اوباما امریکہ سے باہر پیدا ہوئے ہیں۔ جس کے جواب میں ہلاری کلنٹن نے کہا کہ یہ ’جھوٹ بہت دل توڑنے والا ہے‘ جس سے امریکہ کے پہلے افریقی نژاد امریکی صدر کو برا بھلا کہا جا رہا ہے۔ اس پہلے صدارتی مباحثے کا شمار تاریخ میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے مباحثے میں کیا جا رہا ہے

اور اسے مجموعی طور پر دس کروڑ افراد نے ٹی وی پر دیکھا۔ امریکہ میں 8 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب سے قبل ابھی مزید دو صدارتی مباحثے ہونے ہیں۔ایسا محسوس ہورہا ہیکہ دو امریکی صدارتی امیدواروں کا پہلا مباحثہ اصل میں ایک وکیل اور سیلزمین کے درمیان دنگل تھا جس میں بڑی حد تک وکیل کو بالادستی رہی۔ بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں ہو گا لیکن ہلاری کلنٹن امریکہ کی خاتونِ اول بننے سے پہلے نہ صرف وکیل تھیں بلکہ بہت اچھی وکیل تھیں۔ اور یہی پس منظر اس مباحثے میں ان کے کام آیا۔ محتاط انداز، بھرپور تیاری، نظم و ضبط۔ تاہم جو چیزیں کمرۂ عدالت میں کام آتی ہیں، وہ اکثر اوقات انتخابی مہم کی افراتفری میں ادھر ادھر بکھر جاتی ہیں۔ دوسری طرف ڈونالڈ ٹرمپ نے تربیت یافتہ سیلزمین کا کردار ادا کیا۔ اصول، روایت، حتیٰ کہ سچائی بھی صرف اسی حد تک اہم ہوتی ہیں جب وہ ڈیل طے کرنے میں مدد دے۔ تاہم اس طریقۂ کار کا نقصان یہ ہے کہ سیلزمین اکثر خالی باتوں پر زیادہ زور دیتے ہیں اور یہ وہ چیز ہے کہ 90 منٹ پر محیط مباحثے کی تیز روشنیوں تلے کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ انجامِ کار ہلاری کلنٹن کی وکالت کام آئی

اور انھوں نے بڑی حد تک مباحثے پر گرفت مضبوط رکھی۔ ٹرمپ کے پاس منصوبہ بندی تو تھی، اور انھوں نے ایک دفعہ اس پر چلنے کی بھی کوشش کی، لیکن سابق وزیرِ خارجہ نے بڑی حد تک ان کی یہ کوشش ناکام بنا دی۔ ٹرمپ کی دکھتی رگ ان کے ٹیکس ہیں۔ وہ ابھی تک ٹیکسوں کا گوشوارہ منظر عام پر نہیں لا سکے۔ ٹرمپ کا بہانہ یہ تھا کہ ان کا آڈٹ ہو رہا ہے اس لیے وہ ٹیکس جاری نہیں کر سکتے، تاہم کلنٹن نے اسی گرم لوہے پر پے در پے چوٹیں لگائیں۔ ان کا کہنا تھا: ’میرے خیال سے وہ ملک کو اصل وجہ نہیں بتانا چاہتے، کیوں کہ وہ کوئی بڑی اہم، کوئی خطرناک چیز چھپا رہے ہیں۔ ٹیکسوں کے معاملے پر ٹرمپ کو دفاع پر مجبور کردینے کے بعد کلنٹن نے اوباما کی پیدائش کا ٹرمپ کیلئے مشکل مسئلہ چھیڑ دیا۔ کلنٹن کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے اوباما کی پیدائش کے بارے میں جو زبردست مہم چلائی تھی اس کی اصل وجہ نسل پرستی تھی۔ ٹرمپ نے اس کا الزام ہلاری کلنٹن پر دھرنے کی کوشش کی کہ اوباما کی امریکی شہریت کا معاملہ سب سے پہلے کلنٹن نے 2008 میں اٹھایا تھا۔