ہنوئی میں ٹرمپ ۔ کم ملاقات ’’چوں چوںکا مربہ‘‘ : ماہرین

کسی معاہدہ پر دستخظ نہیں ہوئے، بات چیت کا دورانیہ بھی مختصر کردیا گیا
ہنوئی ملاقات سنگاپور میٹنگ کا ’’ایکشن ری پلے‘‘
وفود کے ارکان تیسری ملاقات کیلئے پُرامید
ہنوئی ۔ 28 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے قائد کم جونگ ان کے درمیان دوسری ملاقات کی تیاریاں عرصہ دراز سے کی جارہی تھیں لیکن اس کا تنیجہ ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘ کے مصداق سامنے آیا۔ وائیٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق دونوں قائدین نے ہنوئی میں ہوئی اپنی بات چیت کو مختصر کردیا ہے اور نتیجتاً دونوں ممالک کے درمیان کسی معاہدہ کو قطعیت نہیں دی جاسکی۔ وائیٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری سارہ سینڈرس نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں قائدین کے درمیان تفصیلی اور تعمیری نوعیت کی بات چیت ہوئی جس میں شمالی کوریا کو نیوکلیئر ترک اسلحہ اور معاشی طور پر ایک مستحکم ملک بنانے کے موضوعات بھی شامل رہے لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان کسی معاہدہ کو قطعیت نہیں دی جاسکی جس کی بڑی وجہ یہ بتائی جارہی ہیکہ دونوں ممالک کے وفود کے ارکان اب دونوں قائدین کی تیسری ملاقات کیلئے ماحول سازی کررہے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ ملاقات کے بعد دونوں قائدین کی جانب سے کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں کیا گیا حالانکہ بہت زیادہ توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔ وائیٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے دورہ ویتنام کیلئے جس پروگرام کو مرتب کیا گیا تھا

اس کے مطابق دونوں قائدین کے درمیان ایک مشترکہ معاہدہ پر دستخط کا پروگرام اور بعدازاں ’’ورکنگ لنچ‘‘ بھی پروگرام کا حصہ تھا لیکن ہوا یہ کہ دونوں قائدین نے بات چیت کا سلسلہ معاہدہ پر دستخط کئے بغیر ختم کردیا جبکہ ٹرمپ نے اپنی نیوز کانفرنس کو بھی دو گھنٹوں کیلئے آگے بڑھا دیا جس نے ہنوئی ملاقات کے ’’بہت زیادہ کامیاب‘‘ ہونے کے موقف پر سوالیہ نشان لگادیا۔ سیاست میں اکثر ایسا دیکھنے میں آتا ہیکہ جب کسی دو عالمی قائدین کی ملاقات کی بہت زیادہ تشہیر کی جاتی ہے تو وہ ’’چوں چوں کا مربہ‘‘ بن کر رہ جاتی ہے اور اس کا کوئی تعمیری پہلو سامنے نہیں آتا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ ہنوئی میں ہوئی ملاقات گذشتہ سال سنگاپور میں ہوئی ملاقات کا ’’ایکشن ری پلے‘‘ تھا جہاں دونوں قائدین صرف ’’اسٹائل‘‘ کی خاطر مسکرا رہے تھے، مصافحہ کررہے تھے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ دونوں میکانکی انداز میں ’’ملاقات‘‘ کی تکمیل کررہے تھے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا ہیکہ نیوکلیئر معاہدہ پر دستخط نہ کرکے ٹرمپ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ انہیں شمالی کوریا کو ترک اسلحہ کرنے پر آمادہ کرنے کوئی جلدی نہیں ہے۔ فی الحال تو اتنا ہوجائے کہ شمالی کوریا کوئی نئی میزائل ٹسٹنگ نہ کرے۔ ٹرمپ نے قبل ازیں شمالی کوریا کی تعریفیں کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ اگر شمالی کوریا ترک اسلحہ کرتا ہے تو معاشی طور پر وہ دنیا کا ایک مستحکم ملک بن کر ابھر سکتا ہے۔ ہنوئی میں بھی وہی ہوا کہ دونوں قائدین اخباری نمائندوں کی بھیڑ کے سامنے ایک دوسرے سے ہلکا پھلکا مذاق کرتے اور مسکراہٹیں (نقلی ہی سہی) بکھیرتے نظر آئے۔