ہند ۔ چین کشیدگی

پھر ترے کوچہ کو جاتا ہے خیال
دل گم گشتہ مگر یاد آیا
ہند ۔ چین کشیدگی
جنوبی ایشیا کے دونوںبڑے ممالک ہندوستان اور چین کے مابین کشیدگی عروج پر پہونچتی جا رہی ہے ۔ چین کی جانب سے جارحانہ تیور اختیار کرتے ہوئے ہر روز ایک نئے انداز میں اظہار خیال کیا جا رہا ہے ۔ ڈوکلام تنازعہ نے دونوں ملکوں کے مابین پہلے سے جاری اختلافات کو مزید شدید کردیا ہے اور اس مسئلہ پر ٹکراو کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ ہندوستان نے بھی حالانکہ ہر موقع پر چین کا بہتر انداز میں جواب دیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے چین کے حوصلے پست ہونے کی بجائے مزید بلند ہوئے ہیں اور اس کی بیان بازیوں میںمزید شدت اختیار آگئی ہے ۔ دونوں ممالک کے مابین پہلے سے سرحدی تنازعہ موجود ہے اور اس کو حل کرنے پر زیادہ وقت اور توجہ نہیں دی گئی جس کے نتیجہ میں چین ہندوستان کی سرحد میں کھلے عام در اندازیاں کرتا رہا ہے ۔ ہماچل پردیش میں دونوں ملکوں کے مابین جو سرحدی تنازعہ ہے اس نے باہمی تعلقات کے بہتر ہونے میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔ اگر اس تنازعہ کو بھی بروقت اور پوری توجہ کے ساتھ حل کرلیا جاتا تو پھر مسائل کو حل کرنے میں اتنی مشکل پیش نہ آتی اور نہ تعلقات میں اس قدر زیادہ کشیدگی پیدا ہوتی ۔ اختلافات کسی بھی ملک کے ساتھ ہوسکتے ہیں لیکن ان اختلافات کو مزید شدت اختیار کرتے ہوئے کشیدگی میں بدلنے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ چین کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے ۔ بعض اہم مسائل پر اختلافات پیدا ہوئے تھے اور ان کو حل کرنے اور ان کا حل دریافت کرنے میں تاخیر کی وجہ سے یہ اختلافات اب کشیدگی کی صورتحال اختیار کرگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈوکلام تنازعہ نے بھی اب دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا ہے ۔ یہ دونوں ممالک اپنے علاقہ کے با اثر اور بڑے ممالک ہیں اور اگر کے مابین اختلافات اور کشیدگی میں شدت پیدا ہوتی ہے تو اس کے منفی اثرات مرتب ہونے لازمی ہیں۔ یہ منفی اثرات نہ صرف دونوں کے باہمی تعلقات پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ یہ سارے علاقہ پر بلکہ دنیا بھر پر اس کے اثرات کا ہونا لازمی بات ہے ۔ اس حقیقت کو دونوں ملکوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ایسے اثرات ہوسکتے ہیں جو سارے علاقہ کے امن چین کو اور معاشی ترقی کو متاثر کرسکتے ہیں۔
جب تک دونوںملک باہمی کشیدگی سے ہونے والے منفی اثرات کو سمجھتے ہوئے ان کو کم کرنے کی سنجیدگی سے کوشش نہیں کرینگے اس وقت تک حالات کو معمول پر لانے میں کامیابی ملنا ممکن نظر نہیں آتا ۔ چین یقینی طو رپر جارحیت پسند رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ دوسرے پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی چین کے اسی نوعیت کے تنازعات ہیں۔ ساوتھ چائنا سی کے مسئلہ پر بھی چین کو دوسرے ممالک کے ساتھ کشیدگی کا سامنا ہے ۔ شمالی کوریا کی در پردہ تائید کے مسئلہ پر بھی چین کو دوسرے ممالک کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کے باوجود اس کے رویہ میں اور انداز میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں آرہی ہے ۔ اب ہندوستان کے ساتھ سرحدی تنازعہ اور ڈوکلام مسئلہ پر تو چین میں جنگ کی باتیں تک ہونے لگی ہیں۔ اس سے چین کے عزائم اور اس کے ہٹ دھرمی والے رویہ کا اظہار ہوتا ہے ۔ وزیر خارجہ ہندوستان سشما سوراج نے گذشتہ دنوں کہا تھا کہ چین کے ساتھ ڈوکلام تنازعہ کو حل کرنے کیلئے بات چیت کا راستہ ہی اختیار کیا جائیگا اور ہندوستان کویہ یقین ہے کہ بات چیت کے ذریعہ تمام تنازعات کا حل دریافت کیا جاسکتا ہے ۔ یقینی طور پر بات چیت ہی کسی بھی نوعیت کے اختلافات اور تنازعات کی یکسوئی کا راستہ ہیں لیکن اس کیلئے پوری سنجیدگی اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ وقت گذاری کے انداز میں بات چیت کوآگے نہیں بڑھایا جاسکتا ۔ دوسرے ممالک کو یہ تاثر نہیں دیا جانا چاہئے کہ چین کے معاملہ میں ہندوستان کا رویہ نرمی والا ہے اور ہندوستان سنجیدہ نہیںہے ۔
جو باہمی نوعیت کے اختلافات ہیں ان کو باہمی بات چیت کے ذریعہ ہی حل کیا جاسکتا ہے ۔ ہندوستان کے قومی سلامتی مشیر نے بھی گذشتہ دنوں چین کا دورہ کرتے ہوئے ہندوستان کے موقف سے چین کی قیادت کو واقف کروادیا ہے ۔ اب وزیر خارجہ بھی اس پر لب کشائی کر رہی ہیں اور اس سلسلہ کو تھمنے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ سفارتی کوششوں کو پوری شدت کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ چین کے ساتھ کشیدگی کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے ۔ اس بات کا خود چین کو بھی احساس دلانے کی ضرورت ہے ۔ اسے سمجھانا چاہئے کہ دونوں ہی ممالک علاقہ کے با اثر اور بڑی طاقتیں ہیں اور ان کے اختلافات علاقہ کیلئے بھی منفی اثرات کے حامل ہوسکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کو اہم باہمی اور اہمیت کے حامل بین الاقوامی مسائل پر ایک رائے ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف باہمی بلکہ علاقائی مفادات کا بھی تحفظ ہوسکتا ہے ۔