ہند ۔ چین جنگ کی باتیں

جب سے مریض غم کے مسیحا وہ بن گئے
سب کرسکے، علاج محبت نہ کرسکے
ہند ۔ چین جنگ کی باتیں
ہندوستان اور چین کے درمیان کشیدگی کو ہوا دینے والے میڈیا تبصروں یا دونوں جانب کے لیڈروں کی بیان بازی نے سرحدی صورتحال کی بنیادی حقیقت کو نظرانداز کردیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے امکانات ظاہر کرنے والے قائدین کو موجودہ عالمی کیفیت او ردوسرے امن پسند ملکوں کی پالیسیوں کا علم نہیں ہے۔ اس وقت کسی بھی ملک کیلئے جنگ کے میدان میں اترنا گویا تباہی کو دعوت دینا ہے۔ ساری دنیا میں بیشتر ممالک نے غیرمعلنہ جنگ کا ساتھ دیا ہے خاص کر مشرق وسطیٰ میں یکطرفہ جنگی کارروائیوں پر انسانیت شرمسار ہے ایسے میں ہند۔ چین جنگ کے امکان پر تبصرہ کرنا غیرضروری ہے اور فضول بکواس سمجھی جائے گی۔ تاہم ہندوستان کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں اور اس کے اختیار کردہ موقف سے یہ اندیشہ ضرور ہوتا ہیکہ چین اپنی جارحانہ کارروائیوں کے ذریعہ نقصانات پہنچا سکتا ہے۔ مرکز کی بی جے پی زیرقیادت مودی حکومت نے چین کے معاملہ میں تو نرم پالیسی اختیار کرلی ہے جبکہ پڑوسی ملک پاکستان کو ہر معاملہ میں گھسیٹ کر کشمیر میں صورتحال کو نازک بنانے والے کام کررہی ہے۔ ہند۔ چین کے درمیان لفظی جنگ پر مسلسل نظر رکھنے والے چین کے میڈیا نے جنگ کے امکانات کو واضح کیا ہے تو ہندوستان میں سابق وزیردفاع اور ایس پی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے ہندوستان پر چین کے حملے کے خطرہ سے آگاہ کیا ہے۔ سرحد پر اس وقت سہ رخی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ چین، ہندوستان اور بھوٹان کے درمیان تعطل کی کیفیت کی وجہ سے ہی مختلف تبصرے آرہے ہیں۔ بھوٹان سرحد کے قریب ڈوکلم علاقہ میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی اور ہندوستانی سپاہی دونوں نے اپنا مورچہ سنبھالا ہے۔ چین کے اخبارات اس سرحدی کشیدگی کو ہوا دیتے ہوئے جو تبصرہ کیا ہے وہ افسوسناک ہے اس کا کہنا ہیکہ اگر ہندوستان نے چین سے متصل سرحدی علاقوں پر کشیدگی یا تصادم کی نوبت لائی تو پھر پورے حقیقی خط قبضہ پر خون کی ندیاں بہیں گی۔ چین کے موقف کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ بہت جلد دونوں جانب بڑی جنگ کا امکان ہے۔ چین نے ڈوکلم علاقہ میں ہندوستان پر دباؤ ڈالنے کیلئے فوجی سرگرمیوں میں تیزی بتا رہا ہے۔ سرحدوں پر دونوں جانب فوجی سرگرمیاں معمول کا عمل ہوتی ہیں البتہ اس مرتبہ چین نے ضرورت سے زیادہ ہی فوجی تیاریوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سے صورتحال نازک ہونے کا اندیشہ بڑھ گیا۔ جنگ کے امکانات تو کم ہیں لیکن ہندوستان پر دباؤ بنائے رکھنے کیلئے چین کے حربے تشویشناک ہیں، لہٰذا حکومت ہند کو چین کے معاملے میں غفلت کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ گزشتہ دو ماہ سے تبت کے علاقہ میں جس طرح کی فوجی کارروائیوں میں شدت پیدا کردی گئی ہے، اس سے چین کا جارحانہ موقف ظاہر ہورہا ہے۔ حقیقی خط قبضہ پر دو ماہ سے چین کی غیرمعمولی نقل و حرکت تشویشناک ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ 2009ء سے ہی چین نے سرحدوں پر اپنی فوجی تعیناتی اور چوکسی میں اضافہ کیا ہے۔ ہندوستان نے بھی انفراسٹرکچر بڑھایا ہے اور فوجی مشقیں بھی جاری ہیں۔ چین کو بھی ہندوستان کی فوجی طاقت کا اندازہ ہے۔ اس کے باوجود وہ ہندوستان پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کیلئے یہ حربے اختیار کرسکتا ہے۔ ہندوستان کے پاس بھی فوجی طاقت ہے اور چین سے متصل سرحدوں پر شمالی اور مشرقی سیکٹروں دونوں جانب ہندوستان کی خاطر خواہ فوج تعینات ہے تو ہندوستان کو بھی اپنی فوجی سرگرمیوں اور طاقت کے مظاہرہ کے ذریعہ چین پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کا موقع مل رہا ہے۔ چین کے خطرات کے بڑھتے امکانات کے درمیان دونوں جانب مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں نکالی جاسکتی تو کم از کم دونوں جانب کشیدگی کو ہوا دینے والی لفظی جنگ سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک جنگوں کی تباہی اور نقصانات سے بخوبی واقف ہیں تو خود کو طاقت کے مظاہرہ اور جنگی ہیجان پیدا کرنے والی حرکتوں سے گریز کرنا چاہئے۔ چین کی ضد ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ اس وقت تک بات چیت نہیں کرے گا تاوقتیکہ وہ اپنی فوج ہٹالے۔ جب الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے تو ایسے حالات کے لئے ہندوستان کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے، اس پر غوروخوض کرنا جنگی ماہرین کا کام ہے۔