ہند ۔ روس معاہدے

دورِ حاضر میں جتنے جھوٹے ہیں
سُرخرو ، کامیاب لگتے ہیں
ہند ۔ روس معاہدے
ہندوستان اور روس کے درمیان تعلقات دیرینہ ہیں۔ دفاع، انسداد دہشت گردی، توانائی اور خلائی شعبہ میں اہم شراکت داری کو فروغ دینے کے لئے دونوں ملکوں کے قائدین نے اپنی 19 ویں سالانہ چوٹی کانفرنس میں جن اُمور اور معاہدوں کو اہمیت دی ، ان میں روس سے S-400 میزائیلس کی خریدی معاہدہ قابل ذکر ہے۔ اس کے لئے 5 بلین امریکی ڈالر کا معاہدہ کیا گیا مگر امریکہ نے اس معاہدہ کی مخالفت کی تھی۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ وارننگ دی تھی کہ جو کوئی ملک ماسکو کے ساتھ ’’غیرمعمولی‘‘ تجارتی سرگرمیاں بڑھائے گا، اس کے خلاف سخت ترین تحدیدات عائد کئے جائیں گے لیکن صدر روس ولادیمیر پوٹین کے دورہ ہند کے موقع پر یہ معاہدہ امریکہ کو غصہ دلانے کا باعث بنتا ہے تو آنے والے دنوں میں اس کا ردعمل کیا ہوگا، یہ غور طلب ہوگا۔ فی الحال امریکہ بھی اس موقف میں دکھائی نہیں دیتا کہ وہ روس یا ہندوستان کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی کرے گا۔ ٹرمپ نظم و نسق کی جانب سے یہ شدید اشارے دیئے جاچکے ہیں کہ وہ ہندوستان کی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں کیوں کہ ہندوستان کی فوج کو ملنے والے ساز و سامان کا 60 فیصد حصہ روس سے حاصل ہوتا ہے۔ اب ملٹی بلین ڈالر کے معاہدہ کے ذریعہ S-400 میزائیل خریدے جارہے ہیں۔ دفاعی معاملہ میں روس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اس لئے ہندوستان کے اس معاہدہ کو امریکہ کی حکمت عملی سے ٹکراؤ کی نوبت آنے نہیں دی جائے گی۔ ہندوستان نے روس کے ساتھ میزائیل معاہدہ کے علاوہ خلائی شعبہ، نیوکلیر توانائی اور ریلوے میں بھی معاہدے کئے ہیں۔ اگرچیکہ ہندوستان نے روس کے ساتھ اپنے دفاعی معاہدہ کو مستحکم بنانے کی کوشش کی ہے لیکن پاکستان کے ساتھ روس کے بڑھتے تعلقات کے بارے میں بھی ہندوستان کی بڑھتی تشویش کو اگر صدر روس پوٹین نے محسوس نہیں کیا ہے تو چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی کو روس نے بظاہر نظرانداز کرنے کی پالیسی اختیار کرلی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ویٹو کرتے ہوئے روس نے تاریخی تائید کرتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ اپنی قدیم دوستی کا حق ادا کرنے کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اس مسئلہ پر جنوبی ایشیاء میں اس کی علاقائی ترجیحات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ روس ایک طرف چین سے دوستی مستحکم کررہا ہے تو دوسری طرف ہندوستان کو اپنے دفاعی آلات کی فروخت میں کوئی کمی آنے نہیں دی ہے۔ چین ۔ پاکستان معاشی راہداری پر بھی ہندوستان کے موقف کو نظرانداز کردیا گیا ہے تو اس سلسلہ میں ایک خاص مسئلہ پھر بھی برقرار رہے گا۔ ہندوستان اور روس کے باہمی تعلقات میں 2010 ء میں کچھ تلخیاں ضرور پیدا ہوئی تھیں لیکن بعد کے برسوں میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے دستیاب مواقع سے بھی استفادہ کیا گیا۔ اب جبکہ صدر روس پوٹین نے دورہ کرتے ہوئے ہندوستان کو اپنا تاریخی دیرینہ شراکت دار ملک تسلیم کیا ہے تو ان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت اہمیت اختیار کرگیا ہے جب صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے انتشار پسندانہ بین الاقوامی اُمور نے روس جیسے ممالک کے لئے مسائل پیدا کردیئے ہیں۔ عالمی مسائل پر ہندوستان نے بھی اپنا معاون ردعمل جاری رکھا ہے۔ روس اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کے بارے میں صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے جو کچھ بھی فیصلہ کیا ہے اس سے دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ ویسے ہندوستان نے روس کے علاوہ دیگر ممالک جیسے امریکہ، فرانس، فلپائن، سنگاپور اور انڈونیشیا سے بھی اس طرح کے معاہدے کئے ہیں۔ البتہ ایک دیرینہ اور قدیم دوست ملک کی حیثیت سے روس بلاشبہ ہندوستان کی یقینی طور پر ہر محاذ پر مدد کرے گا۔ دلچسپ سوال تو یہ ہے کہ آیا روس کے ساتھ اس طرح کی دفاعی شراکت داری کے بعد بحر ہند میں روسی بحریہ کی موجودگی کو مزید فروغ حاصل ہوگا کیوں کہ اس خطہ میں کئی توانائی پراجکٹس ہیں اور روس کے مفادات پائے جاتے ہیں۔ نیوکلیر توانائی میں تعاون کے علاوہ روس اب ہندوستان کے لئے گیاس سربراہ کرنے والا اُبھرتا ہوا ملک بن رہا ہے تو آنے والے دنوں میں اس طرح کے کئی توانائی پراجکٹس پر بات چیت کی توقع کی جاسکتی ہے۔
ایندھن کی قیمت میں ناکافی کٹوتی
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں فی لیٹر 2.50 روپئے کم کرنے حکومت کے فیصلہ کے باوجود صارفین کو ہنوز راحت نہیں ملے گی۔ انھیں پٹرول کے لئے اضافی قیمت ادا کرنی پڑے گا جیسا کہ ایک ماہ قبل ادا کی جاتی رہی تھی۔ کم از کم ملک کے چار بڑے میٹرو شہروں میں پٹرول کی قیمت ادا کرنے والے شہریوں کو کسی قسم کی راحت نہیں ملے گی کیوں کہ ایک طرف خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور دوسری طرف روپئے کی قدر میں بتدریج کمی آرہی ہے۔ اس ماہ میں خام تیل کی قیمت میں 9 فیصد اضافہ ہوا تو روپئے کی قدر میں 2.8 فیصد کمی درج کی گئی۔ ایسے میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں کمی کرنے مرکزی حکومت کے فیصلہ کے باوجود چار بڑے شہروں میں پٹرولیم اشیاء کی قیمت ماہ ستمبر سے زیادہ ہی رہے گی۔ اس حقیقت کے پیش نظر دیگر اشیاء کی قیمتوں میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ اگرچیکہ وزیر فینانس ارون جیٹلی نے ریاستی حکومتوں سے ویاٹ یا مقامی ٹیکس میں کمی کرنے کی خواہش کی ہے لیکن یہ کمی بھی دوسرے زاویہ سے صارفین کے لئے راحت کا باعث نہیں ہوگی۔ گزشتہ کئی برسوں میں دو مرتبہ اکسائز ڈیوٹی کی کمی کے باوجود مرکز کی مودی حکومت کی جانب سے پٹرول پر عائد کی جانے والی لیوی تقریباً دوگنی ہی ہے جو چار سال قبل تھی۔ ڈیزل پر لیوی کو 3 گنا بڑھادیا گیا۔ اگر 2014 ء کی قیمت سے یہ تقابل کیا جائے تو اس سے صارفین کی ہی جیب ہلکی کردی گئی ہے۔ آنے والے مہینوں میں حکومت کو عام انتخابات کی تیاری کرنی ہے اس کے لئے پٹرولیم اشیاء پر 2.50 روپئے کی کمی کا اعلان کیا گیا لیکن اس سے آئیل مارکٹ کو 7000 کروڑ کا خسارہ ہوگا۔ اس مارکٹ کے تاجروں کی خالص آمدنی کا 18 فیصد حصہ گھٹ جائے گا تو ظاہر بات ہے کہ آئیل مارکٹ اپنے اس خسارہ کو پورا کرنے کے لئے خفیہ متبادل طریقہ اختیار کرے گی جس پر کوئی کڑی نظر نہیں جائے گی اور لامحالہ صارفین ہی ان سیاسی چالاکیوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔