ہندو مسلم مذہبی بنیاد پرستی

آسام میں ہندو اور مسلم مذہبی بنیاد پرستوں کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس نے واضح کیا ہے کہ ان بنیاد پرستوں سے ریاست میں کوئی خطرہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ بنیاد پرست طاقتیں سرگرم ہیں۔ پولیس عہدیدار کی اس وضاحت کے باوجود فرقہ پرست تنظیموں نے مذہبی بنیاد پر دہشت گردی پھیلاتے ہوئے اس کا الزام مسلم دہشت گردی کے سر تھوپ رہی ہیں۔ آسام یا ملک کی کسی بھی ریاست میں ہندو بنیاد پرستوں کے بڑھتے اثرات کو نظرانداز کرکے صرف مسلم بنیاد پرست تنظیموں کا ہوا کھرا کیا جانا خطرے کی نشانی ہے۔ جمعیۃ المجاہدین بنگلہ دیش اور حرکت المجاہدین پاکستان کو ریاست میں وقتاً فوقتاً سرگرم دکھایا جاتا ہے مگر اس کی حقیقت واضح نہیں ہوتی۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے ملکوں بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی سرگرم ہیں جن کے خلاف وہاں کی پولیس کارروائی کرتی ہے تو اس کے کچھ عناصر آسام میں پناہ لینے کے لئے فرار ہوتے ہیں۔

یہ لوگ آسام کے زیریں علاقہ اور بنگال میں پناہ لیتے ہیں۔ لیکن پولیس کے سامنے اہم سوال یہ ہے کہ مذہبی بنیاد پرستوں اور انتہا پسند گروپس کے درمیان فرق کو کس طرح محسوس کیا جائے۔ آسام میں نسلی اور دیگر انتہا پسند گروپس بھی سرگرم ہیں ان کے تشدد کو حکومت سنجیدگی سے نہیں لیتی اور جب مذہبی انتہا پسندی کا سوال اُٹھتا ہے تو مسلم بنیاد پرستوں کے خلاف ہی کارروائی کی جاتی ہے۔ آسام کی کئی انتہا پسند تنظیمیں جن میں الفا کا نام بھی شامل ہے اس کے ارکان کا دیگر ملکوں کی دہشت گرد تنظیموں سے رابطہ ہونے کا شبہ ظاہر کیا جاتا ہے مگر الفا کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔ الفا کی سرگرمیوں کے دوران آسام میں سال 2011 ء اور 2012 ء کے درمیان 1500 بچے غائب ہوگئے تھے اوری ہ مسئلہ ریاستی پولیس کے لئے سب سے بڑا سنگین مسئلہ ہے۔ ان بچوں کی گمشدگی کا الزام مسلم انتہا پسند تنظیمنوں پر عائد کی جاتی رہی تھی مگر ان لاپتہ بچوں میں سے کئی بچوں کو آسام سے باہر دیگر ریاستوں میں بچہ مزدوری کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا لیکن ان بچوں کے مذہب کے تعلق سے غیر ضروری تشویش میں مبتلا ہوکر پولیس نے انتہا پسندی کو ہی نشانہ بنایا اور یہ بھی اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ 10 تا 15 سال کے ان بچوں کو انسانی خودکش بم برداروں کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے لیکن اس واقعہ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ یہ بچے جن میں 1071 لڑکیاں اور 494 مرد بچے ہیں ان لوگوں کے ہاتھ لگے تھے جو بچوں کو بچہ مزدوری یا فحاشی کے لئے استعمال کرنے کا ریاکٹ چلاتے ہیں لیکن حکومت اور اس کی ایجنسیوں نے ان بچوں کی گمشدگی کو دوسرا رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوئے ماحول کو فرقہ وارانہ طور پر کشیدہ بنانا چاہتی تھی۔

اب سرکاری ایجنسیاں داعش کے نام پر ہندوستانی مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی سازشوں کو مرتب کررہی ہیں تو یہ بھی ایک خطرناک کھیل کا حصہ ہے۔ حال ہی میں کئی مسلم تنظیموں نے دولت اسلامیہ یا داعش کے حوالہ سے حکومت کی ایجنسیوں کے اندیشوں اور قیاس آرائیوں کا مؤثر جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ان مسلم تنظیموں نے دہلی، جودھپور، کوزی کوڈ اور لکھنو میں اپنے اجلاس منعقد کرکے مسلم نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ داعش کی سرگرمیوں سے خود کو دور رکھیں اور سرکاری ایجنسیوں کے پھیلائے گئے جال میں پھنسنے سے بچ جائیں۔ اس میں شک نہیں کہ داعش نے اسلامی پرچم تلے تباہ کن نظریات کو فروغ دے کر اسلام کے مغائر کام کئے ہیں جس کی ہندوستانی مسلمانوں نے شدید مذمت بھی کی ہے۔ داعش یا آئی ایس آئی یا طالبان اور پھر دیگر تنظیمیں لشکر طیبہ وغیرہ کے نام پر اب تک ہندوستانی مسلمانوں اور ان کے نوجوان بچوں کو ہراساں و پریشاں کیا جاتا رہا ہے۔ آلیر انکاؤنٹر واقعہ بھی اسی طرح کی گہری سازش کا حصہ تھا جس کے بعد مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساس کو مزید مضبوط کرنے میں سرکاری مشنری نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ لہذا ہندوستانی مسلمانوں کو سرکاری ایجنسیوں سے چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ داعش کے نام پر ہوسکتا ہے کہ سرکاری ایجنسیاں ایسا جال پھینک رہی ہوں جو کل مسلمانوں کے لئے خطرے کی علامت بن جائے۔