ہندوستان کے وزیر اعظم کو ئی بادشاہ نہیں ہیں صرف پردھان سیوک ہیں۔ونود دوا کا خلاصہ ۔ ویڈیو

بابری مسجد کی شہادت کے ذریعہ سماج کو تقسیم کردیاگیا۔ اتنے بڑے سانحہ کے بعد بھی مسلم نوجوانوں نے شدت پسندی اختیار نہیں کی۔
نوماہ قبل دی وائیر نے اس بات کی شروعات کی تھی کہ وزیراعظم ہند جو دراصل ایک پردھان سیوک ہیں مگر وہ خود کو ملک کا بادشاہ سمجھ رہے تھے اور ہم نے انہیں اس پردھان سیوک کو ان کا حقیقی مقام دلانے میں کچھ حد تک کامیابی دلائی۔

ایونکا ٹرمپ کے حیدرآباد دورے کے موقع پر کیمرے ‘ ایونکا اور مسٹر مودی کے درمیان میں آنے والے ایک بڑے ائی اے ایس افیسر کو ان کا مقام دیکھانے کے واقعہ پر مذمت بھی کی گئی۔ ونود دوا نے دی وائیر کے اس ویڈیو میں بابری مسجد کی شہادت کے متعلق خلاصہ کرتے ہوئے کہاکہ لال کرشنا اڈوانی ‘ اٹل بہاری واجپائی اور پرمود مہاجن‘ مرلی منوہر جوشی جیسے لیڈروں نے رتھ یاترا کے نام پر سارے ملک کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھونک دیا۔

انہوں نے اپنے خلاصے میں اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ ان کے پاس دو سو سے زیادہ کیسٹ موجود ہیں جو لال کرشنا اڈوانی کی تقریروں پر مشتمل ہیں جس میں سماج کو بانٹنے والی لال کرشنا اڈوانی کی تقریریں محفوظ ہیں۔ ونوددوا نے کہاکہ آج دودھ سے مکھی کی طرح اڈوانی کو سرگرم سیاست سے بیدخل کردیاگیاہے جبکہ پرمود مہاجن کو ان کے بھائی نے ہی گولی مار کر قتل کردیا۔

ونود دواء نے کہاکہ یہ ایک مشہور کھاوت ہے جیسے کرم ویسا پھل اور یہی ہوا اڈوانی اور پرمود مہاجن کے ساتھ۔ ونود دوا نے خبر تو بھی ہے کہ بابری مسجد کی پہلی گنبد جب ڈھائی گئی اس وقت کے وزیر اعظم پوجا میں مصروف تھے۔ شام کو کابینہ کی میٹنگ ہوئی جس میں وقت کے صدرجمہوریہ شنکر دیال شرما نے بابری مسجد کی شہادت کا ذمہ دار نرسمہا راؤ کو ٹھرایا جس پر وہ خاموش رہے۔

پچیس سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی بابری مسجد کا غم اور جمہوری ہند وستان پر لگے سیاہ دھبے کے نشان مندمل نہیں ہوئے۔ سال2002میں امریکی دورے کے موقع پر اس وقت کے وزیراعظم ہند من موہن سنگھ نے اپنے خطاب میں کہاتھا کہ بابری مسجد کی شہادت کا بڑا سانحہ ہونے کے باوجود ہندوستان کے مسلم نوجوان جہادی نہیں بنے۔ ونوددواء کے مطابق گجرات فسادات کے بعد مسلم نوجوانوں کچھ حصہ میں شدت پسندی پیدا ہوئی ہے