ہندوستان کا ہر شہری اہم

ہندوستان کا ہر شہری اہم ہوتا ہے ۔ اس کی جانوں کی قدر و تحفظ کرنا حکمراں طبقہ کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر حالیہ 3 برسوں میں گاؤ کشی ، بیف کے نام پر مسلمانوں کی زندگیوں اور املاک کے ساتھ کیے جانے والی زیادتیوں پر لوک سبھا کے جاریہ مانسون سیشن میں اپوزیشن پارٹیوں نے جس طرح کی بحث کی اور احتجاج کے ذریعہ حکمراں طبقہ کی توجہ اس کی کوتاہیوں کی جانب مبذول کروائی ہے یہ ایک سطحی ردعمل ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ واقعات کی سنگینی کے تناظر میں اپوزیشن پارٹیاں متحد ہو کر حکومت کے حلاف اس کی خرابیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کر کے مسلم کش واقعات کے تدارک کے لیے زور دیتی مگر اپوزیشن نے اپنی سیاسی بساط اور ساکھ کے اعتبار سے حکومت کا کان پکڑنے کی کوشش ضرور کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکی ۔ لوک سبھا میں حکومت نے جوابی بیان میں اپوزیشن پر الزام عائد کیا کہ وہ سیکولرازم کے نام پر ڈرامہ کررہی ہے جس کا مقصد وزیراعظم کو بدنام کرنا ہے ۔ مملکتی وزیر داخلہ کرن رجیجو نے بیف کے نام پر ہونے والے حملوں پر قابو اور جرائم سے نمٹنا ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری قرار دیا جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ جن ریاستوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا وہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں ۔ مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے سابق فوجیوں نے ملک کے حالات پر جس طرح کی تشویش ظاہر کی ہے وہ حکومت کے لیے غور طلب ہونا چاہئے۔ اگر حکومت ملک کے سابق فوجیوں کی تشویش کو نظر انداز کرتی ہے تو پھر داخلی طور پر پیدا ہونے والی خرابیوں کے لیے وہ خود ذمہ دار ہوگی ۔ ہندوستانی شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس داخلی سلامتی اور امن و امان کے لیے تشویشناک بات سمجھی جاتی ہے ۔ ملک میں تخریبی عناصر کی سرگرمیوں اور ایک مخصوص گروپ کی گرفٹ بڑھتی جارہی ہے ۔ مسلمانوں اور دلتوں کو جس انداز میں نشانہ بنایا جارہا ہے اس نے سماج میں ایک طرح کا خوف پیدا کردیا ہے ۔ اس موضوع پر اگرچیکہ وزیراعظم مودی نے دو مرتبہ بیان دیا ہے اور واقعات کی مذمت کی ہے اس کے باوجود شہریوں میں خوف و ہراسانی کے احساس کو دور کرنے میں وزیراعظم کا بیان کارگر ثابت نہیں ہوا ۔ جب کبھی اور جہاں کہیں ہجوم کی جانب سے زد و کوبی کے واقعات رونما ہوں اور ریاستی گورنرس کی جانب سے فوری اقدام کرتے ہوئے چیف منسٹرس کی بازپرس کی جائے تو ہجوم کی جانب سے قانون کو ہاتھوں میں لینے کی ہمت کو ختم کرنے میں ریاستی چیف منسٹر سخت کارروائی کرتے مگر افسوس کی بات ہے کہ ریاستی گورنروں نے بھی دستوری فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی سے کام لیا ہے ۔ مرکزی حکومت اس طرح کے واقعات کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کررہی ہے اور جہاں کہیں تشدد کے واقعات ، مسلمانوں اور دلتوں پر حملے کے واقعات ہوتے ہیں تو انہیں حق بجانب قرار دینے کی بھی کوشش کررہی ہے ؟ مویشیوں کی تجارت پر پابندی مویشی مارکٹ میں کام کرنے والوں کو زد وکوب کرنے سے دیہی علاقوں میں معاشی ترقی متاثر ہورہی ہے ۔ کسان اپنے بیمار ، کمزور جانور فروخت کرنے سے قاصر ہیں ۔ ان کی آمدنی ٹھپ ہوچکی ہے ۔ ایک غریب ہندو کسان ہی اپنے جانور فروخت کرتا ہے ۔ اسے مارکٹ میں لے جانے والے لانے میں اگر کوئی مسلم تاجر مصروف ہوتا ہے تو اس پر گاؤ کشی کا جرم تھوپ کر زد و کوب کردیا جاتا ہے ۔ یہ ایک ایسی نا عاقبت اندیشانہ کارروائی ہے ۔ جس کو فوری روکا نہیں گیا تو آئندہ دیہی سطح کی معیشت بری طرح ٹھپ ہوجائے گی اور حکومت کے لیے ہی کئی مسائل پیدا ہوں گے ۔ درحقیقت حکومت اپنی نادانیوں یا ناقص پالیسیوں کے ذریعہ ہجوم کے خوف پیدا کرنے والے ماحول کو ختم کرنے میں ناکام ہو کر خرابیوں کو بڑھاوا دے رہی ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ ملک میں ایک عدم تحفظ کی فضا کے ساتھ معاشی خرابی شدت اختیار کرجائے گی ۔ حکومت کو دیہی سطح پر پیدا ہونے والے معاشی انحطاط پر قابو پانے میں ناکامی ہوگی تو بعد کے ابتر حالات کا سامنا نہیں کرسکے گی ۔ حکومت نے ان واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دینے کی خواہش کی ہے جب کہ حملہ آوروں کا تعلق ایک خاص گروپ سے ہوتا ہے تو یہ نظریات کو دیگر شہریوں پر مسلط کرتے ہوئے ملک کے دستور کی خلاف ورزی ہے۔