ہم رمضان کیسے گذاریں

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اپنی بندگی کیلئے بھیجا ہے۔ انسان یہاں چند روز کا مہمان ہے۔ اپنی مدت مکمل ہونے کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہوجائے گا۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جو یادِ الہٰی میں اپنا وقت گزار دے اور اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لئے ہر لمحہ بے قرار رہے۔ جس کا ہر عمل سنت اور شریعت کے مطابق ہو ایسا انسان دنیا میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی کامیاب۔ ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ رمضان کا یہ بابرکت مہینہ ایک بار پھر ہماری زندگیوں میں آیا ہے۔ ایسا مہینہ کہ جس کے ایک ایک پل میں اللہ تعالیٰ کی رحمت بارش کی طرح برستی ہے۔ جو انسان بھی اس ماہ مبارک کا دل میں ادب رکھتا ہے ، اس کے روزے رکھتا ہے، گناہوں سے بچتا ہے اور عبادات کا اہتمام کرتاہے اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ان شاء اللہ العزیز اللہ تعالیٰ کا قرب اور جنت کے اعلیٰ درجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کی آمد پر صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا : ’’تمہارے اوپر ایک برکتوں والا مہینہ آیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور تم پر رحمتیں نازل فرماتے ہیں۔ تمہاری خطاؤں کو معاف فرماتے ہیں۔ دعاؤں کو قبول فرماتے ہیں اور تمہارے اعمال کو دیکھتے ہیں ‘‘۔ یعنی نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اس میں ترغیب دی گئی کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں ہر بندہ یہ کوشش کرے کہ زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے والا بن جائیں۔ صحابہ کرام ؓ فرماتے تھے کہ جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعمال میں تین باتوں کا اضافہ محسوس کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبادات میں بہت زیادہ فرماتے حالانکہ آپ کے عام دنوں کی عبادت بھی ایسی تھی کہ قدم مبارک ورم کرجاتے اور رمضان المبارک میں آپ کی یہ عبادت پہلے سے بھی زیادہ ہوجایا کرتی تھی۔ دوسری بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ کے راستے میں خوب خرچ فرماتے تھے اپنے ہاتھوں کو کھول دیتے تھے یعنی بہت زیادہ صدقہ و خیرات فرماتے۔ تیسری بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناجات میں بہت زیادہ گریہ وزاری فرماتے یعنی عبادات میں جستجو کرنا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور دعاؤں میں گریہ وزاری کرنا۔