’’ہمنام ہونے سے کچھ نہیں بنتا‘‘

ایک مرتبہ کسی شاعر نے ایک بادشاہ کے دربار میں قصیدہ پڑھا۔ بادشاہ نے اُسے ایک ہزار اشرفیاں اور کچھ چیزیں انعام میں دیں۔ اتنے میں وزیر بھی دربار میں آگیا۔ اُس نے سفارش کی ’’اے بادشاہ تجھ جیسے بادشاہ کی طرف سے اتنا کم انعام نامناسب ہے۔ اُسے مزید دیا جائے۔ بادشاہ نے اُسے دس ہزار اشرفیاں اور خلعت عطا فرمایا۔ شاعر نے وزیر کا نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ اس کا نام حسن ہے۔
شاعر نے اُس کی بھی تعریف کی اور چلا گیا۔ کچھ عرصہ بعد اُس پر پھر وقت پڑا، وہ مفلس ہوگیا۔ اُس نے پہلے کی طرح ایک شان دار قصیدہ لکھا اور اُسی بادشاہ کے دربار میں پیش کیا۔ بادشاہ نے پہلے کی طرح اُسے دس ہزار اشرفی دینے کا حکم دیا مگر نیا وزیر بڑا کنجوس تھا۔ کہنے لگا کہ یہ انعام بہت زیادہ ہے، آپ یہ کام مجھ پر چھوڑ دیں۔ میں اسے چوتھائی پر رضامند کرلوں گا اور آخرکار تنگ آکر شاعر نے ڈھائی ہزار اشرفیاں ہی قبول کرلیں۔ اُس نے پھر وزیر کا نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ اس کا نام بھی حسن ہے مگر مزاج میں بالکل اُلٹ۔حاصل کلام یہ ہے کہ ایک ہی نام کے دو آدمی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوسکتے ہیں۔ ہم نام ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔