ہلاری کلنٹن بمقابلہ ڈونالڈ ٹرمپ

مرے پیچھے یہ تو محال ہے کہ زمانہ گرم سفر نہ ہو
کہ نہیں مرا کوئی نقشِ پا، جو چراغِ راہ گذر نہ ہو
ہلاری کلنٹن بمقابلہ ڈونالڈ ٹرمپ
امریکہ کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار ہلاری کلنٹن کو ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے مضبوط حمایت حاصل ہونے کے بعد وہائیٹ ہاوز کے لئے دوڑ شروع ہوچکی ہے۔ ریپبلکن پارٹی نے ڈونالڈ ٹرمپ کو امیدوار نامزد کیا ہے لیکن ریپبلکن کے کئی قائدین نے ٹرمپ کے بارے میں اپنے تحفظات ذہنی کا اظہار کرکے امریکی صدر رونالڈ ریگن کی اس قدیم پارٹی کے مستقبل کے بارے میں شبہات بھی ظاہر کئے ہیں کیونکہ ری پبلکن پارٹی اب صرف رونالڈ ٹرمپ کی پارٹی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ کیلیفورنیا کے ریپبلکن کنسلٹنٹ دیوگ ایمٹس نے جو صدر ریگن کی تقاریر لکھتے تھے کہا کہ اب ہم کو ریپبلکن پارٹی میں وہ باتیں دکھائی نہیں دیتی جو ماضی میں تھیں۔ اب یہ پارٹی صرف ٹرمپ کی پارٹی بن گئی ہے۔ گذشتہ چند دن قبل ریپبلکن پارٹی کے ارکان نے پارٹی کنونشن میں یہ محسوس کیا تھا کہ اب امریکی رائے دہندوں کو ڈیموکریٹس اور ٹرمپ کے درمیان اپنی پسند کا فیصلہ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ریپبلکن کے بعض سینئر قائدین کا یہ احساس ہیکہ ڈیموکریٹس نے ہنوز اپنا سیاسی مقام مضبوط رکھا ہے۔ ماضی میں ریپبلکن کے صدر رونالڈ ریگن نے اپنی تقاریر کے ذریعہ امریکی عوام کو ایک روشن مستقبل کی جانب لے جانے کا عہد کیا تھا اس کے برعکس ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی نفرت آمیز تقاریر کی وجہ سے امریکیوں کو تاریک کنویں کے قریب پہنچایا ہے۔ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہلاری کلنٹن نے نومبر میں ہونے والے انتخاب کو ملک کیلئے ایک فیصلہ کن گھڑی سے تعبیر کیا ہے۔ بلاشبہ ڈونالڈ ٹرمپ اور ہلاری کلنٹن کی پالیسیوں میں کافی فرق ہے کیونکہ ٹرمپ نے امریکہ کو ماباقی دنیا سے الگ تھلگ کردینے والی سوچ کو فروغ دیا ہے اور ہلاری کلنٹن نے امریکہ کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ ماباقی دنیا کے ساتھ امریکی تعلقات کو مستحکم کرنے کی پالیسی پر عمل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے امریکی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ تاہم امریکیوں کی ایک چھوٹی لابی کسی خاتون کو صدر بنانے راضی نہیں ہے لیکن امریکیوں کی اکثریت نے ہلاری کلنٹن میں امریکہ کے مضبوط مستقبل کو دیکھنا شروع کیا ہے کیونکہ وہ خاتون اول رہ چکی ہیں۔ سینیٹر اور سکریٹری آف اسٹیٹ کی حیثیت سے ان کے تجربات گہرے ہیں۔ اس لئے وہ حکومت اور معاشرتی زندگی کے درمیان درست توازن پیدا کرنے میں کامیاب ہوں گی۔ سال 2008ء میں بھی انہوں نے صدارتی دوڑ میں حصہ لیا تھا لیکن اس مرتبہ وہ پہلے سے زیادہ تیاری کرچکی تھیں اس لئے ڈیموکریٹکس کی بڑی لابی نے انہیں امیدوار نامزد کیا۔ یہاں ہلاری کلنٹن کی حکمت عملی شروع سے ہی کامیاب ہوتے آرہی تھی کیونکہ انہوں نے اپنے مدمقابل ڈیموکریٹک کا کوئی طاقتور مرد امیدوار نہ ٹھہرانے کیلئے سخت جدوجہد کی تھی۔ اس سخت محنت نے ہی انہیں آج دنیا کے سوپر پاور ملک کی صدارت کی دوڑ میں شامل کردیا ہے۔ ماضی میں امریکی سیاست میں یہ بہت کم تصور کیا جاتا تھا کہ پارٹی صدارتی نامزدگی کیلئے ایک خاتون امیدوار ہوں گی لیکن انہوں نے امیدواری کا اعلان کرتے ہی اپنے حوصلے اور ہمت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسی لئے موجودہ صدر بارک اوباما نے انہیں اس عہدے کیلئے انتہائی منفرد طریقہ سے اہل امیدوار قرار دیا ہے کیونکہ ان میں کبھی ہار نہ ماننے کی عادت نہیں ہے۔ ڈیموکریٹک امیدوار کی حیثیت سے اب ہلاری کلنٹن کو داخلی اور خارجی سطح پر پالیسی سازی میں اپنی صلاحیتوںکا مظاہرہ کرنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں کی گئی ان کی تقریر سے یہی ظاہر ہوتا ہیکہ وہ اپنے حریف ڈونالڈ ٹرمپ پر سبقت لے جانے کی تمام صلاحیتیں رکھتی ہیں۔ ڈیموکریٹک امیدوار کے طور پر انہوں نے اپنے رائے دہندوں سے عام نوعیت کے وعدے کئے ہیں۔ متوسط طبقہ کیلئے کالج ٹیوشن مفت کردینے اور چھوٹے کاروبار کرنے والے افراد کو ترقی دینے کا وعدہ بھی شامل ہے۔ وہ امریکہ میں بچوں کی صحت کیلئے انشورنس پروگرام بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں جس کے تحت 8 ملین بچوں کا احاطہ کیا جائے۔ اقتدار پر آنے کے بعد 15 ملین روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں گے لیکن 2010ء میں کساد بازاری کے دور میں امریکہ میں ہر ماہ ملازمتوں سے محروم ہونے والوں کی تعداد بھی سے زیادہ تھی۔ آنے والے 3 ماہ کے دوران امریکہ میں ان دو صدارتی امیدواروں کے درمیان عوامی مقبولیت کی دوڑ ہوگی۔ ایسے میں امریکی عوام اپنے شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کی تاریخ کو کیا سمت دیں گے ان کا فیصلہ اہمیت کا حامل ہوگا۔
بنک ملازمین کی ہڑتال
ملک بھر میں جمعہ کے دن بنک ملازمین کی ہڑتال سے تقریباً 12 ہزار تا 15 ہزار کروڑ روپئے کی لین دین پر منفی اثر پڑا۔ بنکنگ شعبہ میں مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے تقریباً 10 لاکھ بنک ملازمین نے ہڑتال کی تھی۔ سرکاری بنکوں میں خانگی سرمایہ کو مشغول کرنے اور بنکوں کو ضم کرنے کی تجویز پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ بحران زدہ پبلک سیکٹر بنکوں میں اصلاحات لانے کے عمل کے درمیان اگر ٹریڈ یونینوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہے تو ان کی یہ کوشش فضول ہی سمجھی جائے گی کیونکہ ماضی میں بھی بعض بنکوں کو ان کے سرپرست بنکوں میں ضم کرنے کے فیصلہ کے خلاف بنک ملازمین نے دو مرتبہ احتجاج کیا تھا مگر حکومت اپنے فیصلہ پر اٹل رہی اور بنکوں کو ضم کرلیا گیا۔ اسٹیٹ بنک آف اندور اور اسٹیٹ بنک آف سوراشٹرا کو ان کی سرپرست بنکوں میں ضم کرکے حکومت اب دیگر تجاویز پر بھی عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس مرتبہ ٹریڈ یونینوں نے ہڑتال کا راستہ اختیار کرکے عوام الناس کو بنک ضروریات کو متاثر کردیا۔ 80,000 برانچوں میں کام ٹھپ تھا۔ تقریباً 3000 قومی بنکوں اور خانگی بنکوں کے برانچس نے بھی ہڑتال میں حصہ لیا۔ اس سے بنک سیکٹر کی نیک نامی کی پرواہ نہیں کی گئی۔ حالیہ برسوں میں ٹریڈ یونینوں کا اثر اگرچیکہ قومیائے ہوئے بنکوں میں کم ہی دکھائی دے رہا ہے ان ٹریڈ یونینوں کو اپنے لائحہ عمل پر سنجیدگی سے ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے چونکہ حکومت سے ان کی لڑائی سوائے خسارہ کے کچھ نہیں ثابت ہوگی۔ بنکنگ صنعت میں تیزی سے آنے والی تبدیلیوں میں ہر کوئی ترقی اور آمدنی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں ۔