ہبہ کی درستگی کے دعوی پر شرعی گواہ ضروری

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ کا ناکتخدا انتقال ہوا، مرحومہ کی ملکیت میں مورثی جائدادسے کچھ مکانات تھے، جن سے مرحومہ نے تین مکانات فروخت کئے۔ مزید ایک مکان سے متعلق انکی سگی بھتیجی (عامرہ) کا ادعا ہے کہ مالکہ نے انکے چھوٹے نابالغ فرزند کو دیدیا۔لیکن اس کا کوئی قانونی دستاویز و ثبوت نہیں ہے۔ وہ خود اور عامرہ اسی فلائٹ میں قیام پذیر رہے۔ اور ہندہ کا انتقال اسی فلائٹ میں ہوا۔ مرحومہ کے ورثاء میں تین بھتیجے ہیں۔
ایسی صورت میں شرعًا کیا حکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : بشرطِ صحتِ سوال صورتِ مسئول عنہا میں ہندہ نے اپنا جو مکان اپنی بھتیجی عامرہ کے نابالغ لڑکے کو دینے کا جو دعوی ہے، اس ہبہ کے درست ہونے کے لئے شرعًا دو مرد یا ایک مرد دوعورتوں کی گواہی یا موصوفہ کی تحریر کے ساتھ وہ مکان سے اپنا قبضہ ہٹاکر نابالغ لڑکے کے ولی کے قبضہ میں دینا ثابت ہو تو وہ مکان اس لڑکے کا ہوگا۔ ردالمحتار جلد ۴ صفحہ ۴۱۳ میں ہے : (و) نصابھا (لغیرھا من الحقوق سواء کان) الحق(مالا أو غیرہ کنکاح و طلاق و وکالۃ و وصیہ و استھلال صبی) ولو (للارث رجلان) الامی حوادث صبیان المکتب فانہ یقبل فیھا شھادۃ المعلم منفردا قھستانی عن التجنیس۔ فتاوی عالمگیری جلد ۴ کتاب الہبۃ صفحہ ۳۹۲ میں ہے : وان کان الموہوب لہ صغیرا أو مجنونا فحق القبض الی ولیہ و ولیہ أبوہ أو وصی ابیہ ثم جدہ ثم وصی وصیہ۔ ایسا عمل نہ ہونے کی وجہ وہ مکان ہندہ کی ہی ملک رہا۔
ف : ہندہ کے انتقال پر مذکورہ مکان، مرحومہ کا متروکہ ہوا۔ اسکے بعد وضع مصارف تجہیز و تکفین وادائی قرض واجرائی وصیت برائے غیروارث درثلث مابقی، تین حصے ہو کر تینوں بھتیجوں کو ایک، ایک حصہ دیا جائے۔ بھتیجی یا اسکے لڑکے کو کچھ نہیں ملتا۔
شرعًا مرنے والا اپنی ملکیت میں جو کچھ چھوڑا، وہ ’’متروکہ‘‘ کہلاتا ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنا مکان اپنے بکر کو بہوش و حواس بموجودگی دیگر اولاد زبانی ہبہ کردیا اور اسی وقت مکان کے تمام دستاویزات و دیگر اہم کاغذات زید کے حوالے کردیا اور اپنا قبضہ ہٹاکر بکر کے قبضہ میں دیدیا۔ پھربعد میں زبانی ہبہ کی تصدیق کرتے ہوئے اسٹامپ پیپر تحریر کیا۔ اور اس یاد داشت ہبہ نامہ پر کچھ وارثین اور دیگر سے دستخط و ابہام حاصل کیا۔ اس وقت سے اب تک بکر ہی قابض ہے۔
اب بکر کے برادر نے ہبہ نامہ کا ذکر کئے بغیر مرحوم کی متروکہ جائداد کہہ کر ایک فتوی حاصل کیا، جسمیں ورثہ کو حصہ دیا گیا اور متروکہ تقسیم کیا گیا، جو ہبہ کی موجودگی میں درست نہیں ؟ بینوا تؤجروا
جواب : شرعًا مرنے والا اپنی ملکیت میں جو کچھ چھوڑا، وہ ’’متروکہ‘‘ کہلاتا ہے۔ اس میں ورثہ کے حقوق متعلق ہوتے ہیں۔ شریفیہ شرح سراجیہ صفحہ ۴ کے حاشیہ میں ہے : الترکۃ ما یترکہ المیت من مملوکہ شرعًا کالاراضی المقبوضۃ والذہب والفضۃ مضروبتین أو غیر مضروبتین و غیرھما من مملوکہ مما یتعلق بہ حقوق الورثۃ۔ فقط واﷲ أعلم