ہاشم پورہ قتل عام ‘ ملزمین کو سزائیں

تین دہے قدیم ہاشم پورہ قتل عام مقدمہ میںبالآخر ملزمین کو سزائیں سنا دی گئیں ۔ ہاشم پورہ قتل عام واقعہ اس وقت کی تاریخ کا بدترین انسانیت سوز جرم تھا جس کے ملزمین تین دہوں تک قانونی داو پیچ کا سہارا لیتے ہوئے بچتے رہے تھے ۔ حد تو یہ ہوگئی تھی کہ ٹرائیل کی عدالت میں ان ملزمین کو بری تک بھی کردیا گیا تھا تاہم اس فیصلہ کو دہلی ہائیکورٹ میںچیلج کیا گیا تھا اور ہائیکورٹ نے صوبائی مسلح پولیس اتر پردیش کے سابق اہلکاروں 16 ملزمین کو مجرم قرار دیتے ہوئے انہیںعمر قید کی سزا سنادی ۔ اس سے متاثرہ خاندانوں نے قدرے راحت کی سانس لی ہے حالانکہ ان کا اصرار ہے کہ ملزمین کو اس انتہائی سفاکانہ جرم کی پاداش میں صرف عمر قید کی سزا کافی نہیں ہے بلکہ ان کو سزائے موت دی جانی چاہئے ۔ ہاشم پورہ قتل عام مقدمہ دل دہلادینے والی سفاکیت سے بھرپور تھا جب خود قانون کے رکھوالے سمجھے جانے والے پولیس اہلکاروں نے معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا ۔ اس واقعہ کی سارے ملک میں مذمت کی گئی تھی اور بے گناہ اور معصوم افراد کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار بھی کیا گیا تھا ۔ اترپردیش میں اس کے بعد سے قائم ہونے والی حکومتوں کی جانب سے اس معاملہ میں لیت و لعل کی پالیسی اختیار کی گئی تھی اور خاطیوںکو سزائیں دلانے کے معاملہ میں استغاثہ نے بھی لاپرواہی کا مظاہرہ ہی کیا تھا کیونکہ ملزمین کا پولیس فورس سے تعلق تھا ۔ یہ تمام ملزمین اترپردیش کی بدنام زمانہ پی اے سی سے تعلق رکھتے تھے جو انتہائی فرقہ پرست دستہ سمجھا جاتا تھا اور ایک وقت میں یہ خوف کا دوسرا نام بن گیا تھا ۔ فرقہ وارانہ فسادات کے دور میں متاثرین اور عوام پولیس پر بھروسہ کرتے ہیں اور پولیس سے مدد طلب کرتے ہیں۔ تاہم اترپردیش کی پی اے سی پولیس کے بھیس میں فرقہ پرستوں کی آلہ کار کے طور پر کام کرتی تھی ۔ اس نے ہاشم پورہ میں جو کارروائی انجام دی تھی وہ انتہائی افسوسناک اور بدبختانہ اور سفاکانہ تھی ۔ دریا کے کنارے لے جا کر 40 سے زیادہ بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا اور اس کارروائی سے سارے ملک میں انتہائی خوف و دہشت کا عالم بھی پیدا ہوگیا تھا ۔

جہاں تک استغاثہ کا تعلق ہے اس نے خاطیوں کے خلاف جس طرح سے پیروی کی جانی تھی اس طرح سے کی نہیں تھی ۔ اس معاملہ میں کئی موقعوں پر استغاثہ نے انتہائی جھول والی پالیسی اختیار کی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا تھا ۔ خاطیوں کو سزائیں دلانے کی بجائے انہیں بچانے پر زیادہ توجہ دی گئی تھی یہی وجہ رہی کہ خاطی اتنا طویل عرصہ اتنے سنگین اور گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے کے باوجود تین دہوں سے زیادہ عرصہ تک آزاد گھومتے رہے اور انہیں قانون کے مطابق کیفر کردار تک نہیں پہونچایا جاسکا تھا ۔ ملزمین اس سفاکانہ کارروائی کا ارتکاب کرنے کے باوجود سرکاری ملازمت پر برقرار رہے وہ اپنی ملازمت مکمل کرکے سبکدوش بھی ہوچکے ہیں اور اب انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔ یہ بھی استغاثہ کی ایک بڑی ناکامی ہے کہ تین دہوں کے طویل عرصہ کے بعد بھی خاطیوں کو پھانسی کی سزانہیں دلانے میں اسے کامیابی نہیں ملی اور عمر قید کی سزا پر ہی اکتفا کرنا پڑا ہے ۔ عدالت کے فیصلے پر سوال کرنے کی بجائے جہاں تک متاثرہ خاندانوں کے لوگوں کا سوال ہے وہ استغاثہ کے رول سے اب بھی مطمئن نہیں ہیں۔ یہ بات فطری بھی ہے کہ جو لوگ درجنوں اپنوں سے یکایک محروم ہوگئے تھے اور ان کے گھر اجڑ کر رہ گئے تھے انہیں انصاف کیلئے تین دہوں سے زیادہ وقت تک انتظار کرنا پڑا ہے اور یہ بھی خود متاثرہ خاندانوں کے خیال میںادھورا انصاف ہے ۔
جن ملزمین کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائیں سنائی گئی ہیں انہیں خود سپردگی کیلئے مہلت دی گئی ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ یہ مجرمین اپنی سزا کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہوں اور پھر متاثرین کی دہائی بے اثر ہوکر رہ جائے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ استغاثہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کی اپیلوں کو بھی جلد مسترد کردیا جائے اور استغاثہ اس سلسلہ میں قبل از وقت کارروائی انجام دے ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ استغاثہ کی جانب سے مجرمین اور خاطیوں کو سزائے موت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع ہوا جائے ۔ استغاثہ اگر ایسا کرتا ہے تو متاثرہ خاندانوں میں طمانیت کا احساس پیدا ہوسکتا ہے اور ان میں اب بھی عدم اطمینان کی جو کیفیت پیدا ہوئی ہے اس کو دور کرنے میں استغاثہ کو کامیابی مل سکتی ہے ۔