گوا کی نئی حکومت

بی جے پی کو اقتدار اتنا عزیز ہے کہ وہ اپنے ہی سینئیر لیڈر کے انتقال کے فوری بعد سوگوار ماحول کا بھی خیال نہیں کیا اور راتوں رات گوا کا چیف منسٹر منتخب کرنے کے لیے جس پھرتی اور طوفانی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا اس کے نتیجہ میں آج پرمود پانڈو رنگ ساونت گوا کے نئے چیف منسٹر بن گئے ۔ چیف منسٹر منوہر پاریکر کی موت کے بعد بی جے پی نے ریاستی حکومت بچانے کے لیے سیاسی پینترے بازیوں کا بدترین مظاہرہ کیا ۔ بی جے پی نے گوا کا اقتدار کانگریس کے سپرد ہونے سے روکنے کے لیے مہاراشٹرا وادی گومانتک پارٹی اور گوا فار ورڈ پارٹی کے ساتھ بات چیت کی اور رات دیر گئے تقریباً 2 بجے گورنر مردلا سنہا نے پرمود ساونت کو عہدے اور راز داری کا حلف دلایا ۔ گوا کی نئی کابینہ میں 11 نئے وزراء کو بھی حلف دلایا گیا ۔ گوا فارورڈ پارٹی کے وجئے سرویسا اور ایم جی پی کے سدین دھاولیکر کو ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدے پر تعینات کیا گیا ۔ منوہر پاریکر کی آخری رسومات کی انجام دہی سے زیادہ بی جے پی قائدین نتیش گڈکری اور امیت شاہ کو پارٹی کی زیر قیادت اتحاد میں دلچسپی تھی ۔ گوا کو سوگوار ماحول میں یہ سیاسی اتھل پتھل کرنے والی بی جے پی کو نعشوں پر سیاست کرنے کا قدیم تجربہ ہے ۔ اس نے ایک غم کے ماحول میں افسوسناک حرکت کرتے ہوئے اپنا اقتدار بچالیا ہے ۔ گوا کی سیاست کے پیچھے بھی ان سیاستدانوں کا مکروہ رول رہا جو کل تک پاریکر کے بارے میں اپنی محبت کا اظہار کرنے میں آگے آگے رہتے تھے ۔ گوا کی نئی مخلوط حکومت پاریکر کی آرتھی پر رکھی جاچکی ہے جس کے دو ڈپٹی چیف منسٹر ہیں ۔ گوا میں گاؤ رکھشک کی سیاست کرنے والے لیڈر کو بھی لوگ فراموش کرچکے ہیں ۔ اب عام انتخابات کے موقع پر گوا کے نئے چیف منسٹر پرمود ساونت کو ریاست کے لیے غیر موزوں لیڈر قرار دیا جارہا ہے ۔ انہیں منوہر پاریکر کا فطری جانشین بھی سمجھا نہیں جاسکتا ۔ ساونت صرف آر ایس ایس سے وابستگی کی وجہ سے بی جے پی کے رکن اسمبلی بن گئے ہیں ۔ پیشہ سے آیورویدک ڈاکٹر جو نہرو یووا کیندر کے رکن کی حیثیت سے عوامی زندگی میں سرگرم تھے ۔ پاریکر نے انہیں وہاں سے اپنی صف میں لاکھڑا کیا تھا ۔ گوا میں چیف منسٹرس کے تقرر کے لیے کوئی ضابطہ تو نہیں ہے لیکن اس ریاست پر اب تک مراٹھا یا سرسوت برہمنوں کا ہی اقتدار رہا ہے ۔ اگر گوا کے سابق چیف منسٹروں کے ناموں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں مراٹھا لابی یا برہمنوں کا رول رہا ہے ۔ گوا میں او بی سی کی آبادی 20 فیصد ہے لیکن اب تک کسی بھی پارٹی نے او بی سی سے چیف منسٹر کو منتخب نہیں کیا ۔ شائد دونوں طبقات میں یہ اندیشہ پایا جاتا ہے کہ اگر کسی او بی سی لیڈر کو چیف منسٹر بنایا جائے تو یہ اصول بن جائے گا اور ان دو طبقوں کو اعلیٰ عہدے حاصل نہیں ہوں گے ۔ اس لیے اب تک گوا کی سیاست میں برہمنوں اور مراٹھوں کو ہی بڑھاوا دیا گیا ہے ۔ پرمود ساونت کو سابق کا کوئی کابینہ تجربہ نہیں ہے وہ حکومت کے امور سے بھی خاص واقف نہیں ہیں ۔ ان کی یہ ناتجربہ کاری گوا کے لیے خاص کر بی جے پی کے لیے کس حد تک فائدہ پہنچائے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ فی الحال انہیں آر ایس ایس سے وابستگی کا انعام ملا ہے ۔ اتحادی پارٹیوں کے ساتھ مفاہمت کے بعد ہی ساونت کو حلف دلایا گیا ۔ شائد نا تجربہ کار لیڈر آسانی سے پارٹی قیادت کے آگے جھک جاتا ہے اور ایسے لیڈر کو استعمال کرنا ہی آر ایس ایس بی جے پی کے لیے آسانی ہوگی ۔ البتہ ساونت کو ایک بے داغ اور صاف ستھرا امیج والا لیڈر قرار دیا جاتا ہے وہ بھی ایک مراٹھا ہیں وہ گوا کے چیف منسٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض بخوبی انجام دینے میں کامیاب ہوتے ہیں تو بی جے پی کو پاریکر کی کمی محسوس نہیں ہوگی لیکن گوا کے عوام ، منوہر پاریکر کے بغیر بی جے پی کا کتنا ساتھ دیں گے یہ بہت جلد ظاہر ہوجائے گا ۔