گستاخِ نبی ملعون و لعنتی

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي اللہ عنه قَالَ : بَيْنَا النَّبِيُّ صلي اللہ عليه وآله وسلم يَقْسِمُ، جَاءَ عَبْدُﷲِ بْنُ ذِي الْخُوَيْصَرَةِ التَّمِيْمِيِ فَقَالَ : اعْدِلْ يَا رَسُوْلَ ﷲِ، قَالَ : وَيْحَکَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، (أَوْ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي اللہ عنه : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! دَعْنِي أَقْتُلُ هَذَا الْمُنَافِقَ الْخَبِيثَ.)، قَالَ : دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا، يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنَ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ، يُنْظَرُ فِي قُذَذِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَصْلِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمٌ يُنْظَرُ فِي رِصَافِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَضِيِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ. . . الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ! عدل سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن پر) حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا : کم بخت! اگر میں عدل نہیں کرتا تو اور کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے میں اس (خبیث) کی گردن اڑا دوں (یا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! مجھے اجازت دیجئے، میں اس خبیث منافق کی گردن اڑا دوں۔ ) آپ ﷺنے فرمایا : رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یاہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانو گے۔ لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ ہوگا اور تیر (جانور کے) گوبر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی ان خبیثوں کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہ ہو گا)۔‘‘